کہانی در کہانی

یہ تحریر 482 مرتبہ دیکھی گئی

کہانی در کہانی:

تیرہویں کہانی:

میں شاعر ہوں اک وقت کی میں صدا ہوں-مشیرکاظمی کی داستان:

گزشتہ اتوار صوفی تبسم اکیڈمی نے معروف شاعر، استاد اور دانشور صوفی غلام مصطفی تبسم کے یوم ولادت کی مناسبت سےصوفی تبسم صاحب کی رہائش گاہ سمن آباد میں “شام غزل” کا اہتمام کیا تھا، ڈاکٹر فوزیہ تبسم اور اُن کے شوہر نامدار آغا شاہد نے حسب معمول انتہائی محبت سے مجھے شرکت کی دعوت دی – میرا ہمیشہ یہ معمول رہا ہے کہ عموما”میلوں ٹھیلوں سے دور رہتا ہوں، تاہم جو لوگ دل کے قریب ہوں اُن کو ٹالانہیں جا سکتا-میری خوش بختی دیکھئے کہ ایک عرصےکے بعد وہاں میری ملاقات اپنے ہمدم دیرینہ معروف شاعر اور دانشور شعیب بن عزیز سے ہوگئی اور اُن کے ساتھ پانچ چھ گھنٹےصحبت رہی، شعیب اور میرا اُس وقت کا ساتھ ہے جب ہم دونوں گیارھویں کے طالب علم تھے،وہ انتہائی نفیس ، خاکسار اور درویش منش شخص ہے اور یاروں کا یار-سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ شعیب کے ساتھ سید مشیر کاظمی کے صاحبزادے سید ثقلین کاظمی بھی یہاں آئے ہوئے تھے اُنہوں نے مجھے حال ہی میں شائع ہونے والا”کلیات مشیر کاظمی” بھی عنایت کیا جومیرے لئے نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ جناب مشیر کاظمی سےمیرا دل کارشتہ ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ یہ اواخر ۱۹۶۶ع کا ذکر ہے کہ جب میں دیال سنگھ کالج میں بی اے کا طالب علم تھااور سیاسیات کے ساتھ اُردو میرا اختیاری مضمون تھا سید سرور حسین ہمیں اُردو پڑھاتے تھے-سیدصاحب انتہائی وجیہ اور پُرکشش شخصیت کےمالک تھے وہ استادمحترم ڈاکٹر خواجہ محمدزکریا کے اوریئنٹل کالج میں ہم جماعت رہے اور خواجہ صاحب اُن کو ملنے کے لئے کبھی کبھار دیال سنگھ کالج آیا کرتے تھے،میں پہلی مرتبہ وہیں خواجہ صاحب کو ملا تھا-

سرور صاحب کو کوالللہ تعالئ نےحُسن صورت کے ساتھ حُسن سیرت کی خوبی سے بھی نوازا تھا،وہ ہاتھ کے بھی بہت کُھلے تھے، ہماری اُردو کی اس کلاس میں چار طالب علم تھے،ہفتے میں ایک دن سرور صاحب کلاس کےبعدہمیں “کنگ سرکل ہوٹل”لے جایا کرتے اوراکل وشرب کےساتھ ساتھ کسی نہ کسی ادیب یاشاعرسےملوایا کرتے تھے،پھر”کلام شاعربہ زبان شاعر” سنواتے تھے-اپنے دور کے انتہائی مقبول و معروف شاعر اور مداح اہل بیت ع مشیر کاظمی سے میری پہلی ملاقات لکشمی چوک میکلوڈ روڈ پر واقع اسی“کنگ سرکل ہوٹل” میں ہوئی تھی،وہ دراز قد، پُر وقار اور متاثر کُن شخصیت کے مالک انتہائی خلیق انسان تھے ، ایسے انسان جن سے بار بار ملنے کو جی چاہے، بعد میں متدد بار کاظمی صاحب سے ملنے کے مواقع ملتے رہے، کبھی ریڈیو پر، کبھی مشاعروں میں اور کبھی محافل و مجالس میں،ہمیشہ محبت سے ملے کہ محبت اُن کی سرشت میں شامل تھی کنگ سرکل ہوٹل میں اُن دنوں ادبی وفلمی دنیا سے تعلق رکھنے والی تمام اہم شخصیات آیا کرتی تھیں کہ رائل پارک اس کےپچھواڑےمیں تھا جہاں فلموں کے پروڈیوسرز اور ڈسٹری بیوٹرز کےدفاتر ہوا کرتےتھے اور کچھ آگے جا کر ڈیوس روڈ پر ہی ریڈیو پاکستان لاہوراسٹیشن تھا جو آج بھی وہیں ہے،اسی ہوٹل میں پہلی بار میں نے اُس دورکے بڑے بڑےبڑے شعراء کو دیکھا تھااور اُن سےملاقات ہوئی تھی جن میں ظہیر کاشمیری قتیل شفائی،تنویر نقوی حبیب جالب،اور مشیر کاظمی بھی جو اُن دنوں شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے تھے اور جن کے قومی نغمے زباں زد عام تھے:

اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو/تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں-پھر وہ فلمی نغمہ جس کی دھومیں چار دانگ عالم میں تھیں: چاندنی راتیں تاروں سےکریں باتیں سب جگ سوئے ہم جاگیں-اُن کی لکھی ہوئی شہبازقلندرکی دھمال نے تو واقعی چہار جانب دھمالیں ڈالی ہوئی تھیں:لعل مری پت رکھیو بھلا جھولےلعلن / سندھڑی دا، سہون دا / سخی شہباز قلندر، دمادم مست قلندر/علی دا پہلا نمبر-صرف یہی نہیں اُردو کے رثائی ادب میں بھی مشیر کاظمی کا کوئی ثانی نہیں تھا کہ بقول خود کاظمی صاحب کے:مرے قلم کو نجف سے ملی ہے یہ پرواز/وگرنہ زُلفِ بُتاں میں اُلجھ گیا ہوتا/نگاہِ ساقئ کوثر کا فیض ہےورنہ/کبھی کا پیرِمغاں مجھ کو لے اُڑا ہوتا-مشیر کاظمی کی نظم “ حسین سب کا”توآج بھی ہر محفل و مجلس میں پڑھی اور پسند کی جاتی ہے: حسین تیرا، حسین میرا، حسین ان کا حسین اُن کا/حسین جگ کا،حسین سب کا حسین رب کا-اُن کے پڑھنے کا انداز بھی منفرد تھا،کڑک دارلہجہ، پُرسوز آوازسامعین کومبہوت کردیتی تھی،مشیر کاظمی کو بہت جلد بلاوا آگیا اور وہ محض اکاون سال کی عمر میں ہی اس دار فانی سےرخصت ہو گئے بلکہ اپنی زندگی میں اپنا کوئی مجموعہ بھی شائع نہ کروا سکے،البتہ اُن کے فرزند ارجمندسبطین کاظمی نے سلام،منقبت و مراثی پرمشتمل مجموعہ مرتب کرکے”کھلی جو چشم بصیرت” کے نام سے ضرور شائع کیا تھا مگریہ ضروری تھا کہ اُن کے سارےکلام کومنظرعام پرلایا جائے تاکہ مستقبل کا نقاد مشیر کاظمی کے مرتبہ و مقام کا تعین کر سکے، یہ بڑا کٹھن مرحلہ تھا کہ کاظمی صاحب کا کلام جابجا بکھرا پڑا تھا، اس کو یکجا کرنا اور پھر ترتیب دینا کار دارد تھا مگر:سب پہ جس بارنےگرانی کی /اُس کویہ ناتواں اُٹھالایا-مشیر کاظمی کےسعادت منداور لائق فرزند ثقلین کاظمی نے بالآخر یہ بیڑا اُٹھایا، چنانچہ “کلیات مشیر کاظمی” اب ہمارے ہاتھوں میں ہے اورزبان حال سے کہہ رہا ہے:اگر پدر نتواند پسرتمام کند
آمدم برسر مطلب، اب ثقلین کاظمی کی مرتبہ “کلیات مشیر کا ظمی” پر چند باتیں-کلیات انتہائی سلیقے کے ساتھ مرتب کیا گیا ہےاور اتنے ہی سلیقے سےاس کی طباعت ہوئی ہے گویا صوری ومعنوی ہر دو لحاظ سے یہ مشیر کاظمی کی شاعری کے شایان شان ہےثقلین کاظمی نےپیش لفظ میں اُن تمام کٹھن مراحل کاذکر کیا ہے جن سے کلیات مرتب کرتے وقت اُن کو گزرنا پڑااورآخر میں یہ لکھا ہے کہ جوخواب وہ اپنی معاشی مجبوریوں کی بناپر اپنی حیات مستعار میں پورا نہ کر سکےالحمدلللہ آج مشیر کاظمی کا خواب پورا ہوا-پیش لفظ کے بعد “مشیر کاظمی مشاہیر کی نظر میں” کے زیر عنوان آغا شورش کاشمیری،الطاف حسن قریشی ، مجیب الرحمان شامی ،عطا الحق قاسمی، امجد اسلام امجد،شعیب بن عزیز اور ناصر زیدی کےمشیر کاظمی کے فن وشخصیت پر مختصرتبصرے شامل ہیں اور پھر “حمد و نعت”کے زیرعنوان ایک نظم سےکلیات کے متن کا آغازہوتاہے،اس کلیات کوانتہائی سلیقےکےساتھ قومی شاعری منقبت و سلام و مرثیہ اور شاہکار فلمی نغمےکے زیر عنوان تین حصوں میں مرتب کیا گیا ہے-آخر میں مشیر کاظمی کی تحریر کا ایک نمونہ اُن کی ۱۹۵۵ع کی ایک تصویر کے ساتھ لگایا گیاہےکلیات کی اشاعت سے مشیر کاظمی کی شاعری کو جو آج تک نظروں سےاوجھل رہی منظرعام پرلانےکی کامیاب کاوش کی گئی ہے-مشیر کاظمی کی شاعری پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے ہی سےاُن کے فن شعر پرعبوراوراُن کی تخلیقی اُپچ کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے اور اس حقیقت کا ادراک بھی ہوتا ہے کہ وہ مقبول عام عوامی شاعر ہونے کےساتھ ساتھ منفرد انداز کے نظم گو تھے جن کادائرۂ کارقومی و معاشرتی مسائل اور پاکستان کی محبت ہے-وہ محب رسول ص اور اہل بیت اطہار تھےجس کا ثبوت کلیات کے دوسرےحصے کےسلام،منقبت اور مراثی ہیں،ہاں البتہ یہ بات محل نظر ہےکہ تین سوچھتیس صفحات پر مشتمل پورےکلیات میں اُن کی صرف ایک غزل شامل ہے،یہ درست ہے کہ مشیر کاظمی بنیادی طور پر نظم گو شاعر ہیں مگر یہ توہو نہیں سکتا کہ اُنہوں نےغزلیں نہ کہیں ہوں،ہاں البتہ یہ ممکن ہے کہ ثقلین کاظمی کی اُن تک دسترس نہ ہوئی ہو،برادرم ناصر زیدی زندہ ہوتے تو وہ پاتال سے بھی یہ خزانہ نکال لاتے کہ وہ شعر و ادب کے چلتے پھرتے انسائیکلوپیڈیا تھے-کلیات کی یہ اکلوتی غزل آپ بھی سنیئےاور سر دھنئیے؀رات ہم نے بھی یوں خوشی کرلی/دل جلاکر ہی روشنی کر لی/ کانٹے دامن تو تھام لیتے ہیں/کیسے پھولوں سے دوستی کرلی/ہم نے اک تیری دوستی کے لئے/ ساری دنیا سے دشمنی کر لی/ آتےجاتے رہاکرو صاحب/آنے جانے میں کیوں کمی کرلی/تیری آنکھوں کی گہری جھیلوں میں/غرق ہم نے یہ زندگی کرلی/ہم نے اُن سے نظر ملا کے مشیر/کتنی بے چیں زندگی کرلی-