مظہر محمود شیرانی

یہ تحریر 3158 مرتبہ دیکھی گئی

دماغ نے تو خبر سنتے ہی یقین کر لیا تھا کہ میرے مُحبّ، میرے دوست، مظہر محمود شیرانی اس دنیا سے چلے گئے۔ مگر دل نے اب تک اس کو دل سے نہیں مانا۔ یہی محسوس ہوتا ہے کہ ذرا کورونا کا زور ٹوٹ لے اور تعلیمی ادارے کھل جائیں تو میں، معمول کے مطابق، پیر کے روز ۔۔۔۔ (شیرانی صاحب اب پیر کو ہی آیا کرتے تھے)۔۔۔۔ کلاس کے وقت سے آدھ پون گھنٹہ پہلے جی سی یونیورسٹی پہنچ کر سیدھا ٹاور کی طرف سے ہوتا ہوا، اولڈ ہال کے پورچ سے گزرتا ہوا، شعبہ فارسی کے بھاری بھرکم جالی دار دروازے کے سامنے پہنچوں گا اور وہ اندر ہی سے مجھے دیکھ کر کھل اُٹھیں گے اور کمال محبت سے اُٹھ کر میرا سواگت کریں گے۔ پھر وہ اس باغ و بہار محفل میں چہک چہک کر کبھی کوئی لطیفہ سنائیں گے اور کبھی کوئی علمی نکتہ بیان ہوگا۔ بیچ بیچ میں خود اپنے ثقلِ سماعت پر ہنسیں گے اور دوسروں کو ہنسائیں گے۔ اب کے میں اُن سے خود اُن کی وفات کی افواہ پر بھی بات کروں گا اور وہ غالب کی طرح اپنے مخبر مرگ کی تقریر کو آدھی سچ اور آدھی جھوٹ قرار دیتے ہوئے بابا بلھے شاہ کا یہ مصرع دہرائیں گے:

بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں ، گور پیا کوئی ہور

میرے دل کو وبا کے ختم ہونے اور اس محفل میں جانے کا انتظار ہے۔ مگر میرا دماغ سوگوار اور دل کی سادہ دلی پر اشکبار ہے۔

سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کی عظمت کو پہچاننے کے لیے دیکھنے والے کی آنکھ میں بھی عظمت کا ہونا شرط ہے۔ ورنہ زندہ آدمی بڑا آدمی معلوم ہی نہیں ہوتا۔ اور پھر شیرانی صاحب جیسا آدمی جسے دوسروں کو خوبیاں دیکھنے سے کبھی اتنی فرصت ہی نہیں ملی کہ اپنی خوبیوں کا اثبات کر سکے۔ چنانچہ دوسروں کو اُن کی عظمت کیا نظر آتی جب کہ وہ خود اپنی ہی نگاہ میں بس عام سے آدمی تھے۔

شیرانی صاحب کی حقیقی دل چسپی کا محور بھی عام اور گمنام لوگ ہی رہے۔ خاکوں کا ایک پورا مجموعہ اُنھوں نے انہی بے نشانوں کے نشان کے لیے وقف کیا۔ ان کرداروں میں “کوئی بھی جہاں نُورد جہاں گیر نہیں” کہیں گل نبی ہے کہیں چک 17 کا شریفا اور کہیں تیسری صنف سے تعلق رکھنے والا شبیرا۔ اور ایک خاکہ تو گمنامی کی سرحدپار کرکے بے نامی کی سرزمیں میں جا پہنچا ہے۔

مظہر محمود اتنا اچھا خاکہ کیسے لکھ لیتے تھے، اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ اُن کے ہاں نفی ذات کی صلاحیت تھی۔ اُن کی خودی راستے سے اُٹھ جاتی تھی۔ جب خاکہ لکھتے تو سراسر وہی کردار اُن کے قالب میں سمایا ہوا ہوتا اور تحریر میں بھی بس وہی نظر آتا۔ ہاں مظہر محمود فقط اُس ایک روزن سے دکھائی دیتے جس سے انھوں نے خود اس کردار کو دیکھا تھا۔

عموماً زندہ لوگوں کا خاکہ نہیں لکھتے تھے۔ کئی دوستوں نے ان کے کرداروں کو رشک سے دیکھا اور آرزو کی کہ وہ اسی خلوص اور دل سوزی سے اُن کی تصویر بھی بنا دیں مگر اس کے لیے مرنا پڑتا تھا۔ کچھ احباب اس گومگو میں تھے کہ کیوں نہ اُن کی شرط مان ہی لی جائے کہ انھوں نے خود ہی کوچ کا نقارہ بجا دیا۔

مظہر محمود صاحب میں بڑائی ذاتی بھی تھی اور موروثی بھی۔ اُن کے دادا حافظ محمود شیرانی برصغیر میں اردو تحقیق کے اُستادِ اوّل سمجھے جاتے ہیں۔ جس زمانے میں انھوں نے اعلیٰ درجے کے تحقیقی کارنامے سر انجام دیے جیٹھ کی یہی گرمی اور بھادوں کی یہی اُمس ہوا کرتی تھی جس میں وہ کسی خس خانے کے بغیر بنیان پہنے، پسینے کی لڑیوں میں نہائے اپنے ذوق و شوق کی تکمیل کے لیے کام کرتے تھے۔ نام اُن کے کام کے پیچھے پیچھے آیا۔

مظہر صاحب کے والد اختر شیرانی اپنے وقت میں برصغیر کے مقبول ترین رومانی شاعر مانے گئے۔ مے نوشی کی لت پڑ جانے کا ان کے محقق باپ کو شدید صدمہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے گھر میں اختر کا داخلہ بند کر دیا اور اپنے اس اکلوتے بیٹے سے قطع تعلق کر لیا۔

اختر شیرانی کو لوگوں نے انہی دو حوالوں ۔۔۔ (شراب نوشی اور رومانی شاعری) ۔۔۔ سے یاد رکھا۔ حالانکہ وہ بہت عالم آدمی بھی تھے اور ناراض باپ بوقتِ ضرورت کاغذ کے پرچے پر لکھ کر کوئی تحقیق طلب نکتہ اُن کو بھجوا بھی دیتے تھے۔ اور اختر صاحب اپنا سب کام چھوڑ کر مطلوبہ معلومات تلاش کرتے اور مظہر محمود صاحب کے ہاتھ واپس بھجوا دیتے تھے۔ احترامِ دین اختر صاحب کے دل میں غایت درجے کا تھا۔ ان کی دل نشیں نعتیں اور اسلامی نظمیں نیز ترجمہ جوامع الحکایات جیسے علمی کام عوام الناس کی نگاہوں سے اوجھل رہے۔

مظہر محمود صاحب کو بیشتر شغف دادا سے رہا۔ اُن کے مقالات کو دس ضخیم جلدوں میں مرتب کرنے کام انھوں نے کمال جانفشانی سے کیا اور پی ایچ۔ڈی کا مقالہ بھی اُنہی کی علمی و ادبی خدمات پر لکھا۔ تاہم یہ تاثر کہ اُنھیں باپ سے کچھ تعلقِ خاطر نہیں تھا، درست نہیں۔ میں نے طویل عرصے کی نشستوں میں جب کبھی اُن کے منہ سے اختر شیرانی کا ذکر سنا ۔۔۔۔ (جنھیں وہ “والد” کہہ کر یاد کرتے تھے)۔۔۔۔ گہری محبت کی ایک نادیدہ موج اُن کے بظاہر بے تاثر خط و خال کے پیچھے رواں دیکھی۔ کم از کم میں اس موج کو دیکھ سکتا تھا۔ ایک آدھ بار ایسا بھی ہوا کہ میں نے کوئی شعر پڑھا تو مظہر محمود صاحب نے پوچھا “کس کا ہے؟” میں نے جواب دیا “حضرت اختر شیرانی کا”۔ اس پر ظاہری بے تاثری کی چادر کے پیچھے سے گزرتی تاثر کی وہی موج مجھے نظر آئی۔ انھوں نے خود اختر صاحب کا جو خاکہ لکھا ہے نہایت قیمتی ہے۔ اس میں یہ موج، آفتابِ پسِ ابر کی طرح زیادہ نمایاں ہے۔ مثلاً یہ ذکر کہ وہ ہم بہن بھائیوں سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ انھوں نے مجھے کبھی مارا یا جھڑکا ہو۔ اسی طرح ٹونک میں مظہر صاحب کو بچپن میں ہوائی بندوق لا کر دینے کا تذکرہ نیز بچوں کا اپنے پالے ہوئے چوزے اختر صاحب کے ہاتھ فروخت کرنے اور قیمت کی وصولی کے دل چسپ تقاضے کا بیان، یہ سب ایسے مقامات ہیں جنھیں تحریر میں لاتے ہوئے مظہر محمود صاحب کی آنکھیں ضرور نم ہوئی ہوں گی۔

کلیاتِ اختر شیرانی کی اشاعت پر شیخوپورہ میں ایک تقریب ہوئی جس میں مجھے بھی یاد کیا گیا۔ مظہر محمود صاحب بھی شریکِ محفل تھے اور انھوں نے بھی اختر صاحب کے حوالے سے بات کی۔ میں نے اختر صاحب کی شاعرانہ خصوصیات کے علاوہ اُن کی شخصیت کے ایسے پہلوؤں کی طرف بھی اشارہ کیا جو عموماً نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ بعدازاں جب تسلیم احمد تصور نے اپنے رسالے سہ ماہی “سورج” کے 2006ء کے سالنامے میں گوشہ اختر شیرانی کا اہتمام کیا تو یاد پڑتا ہے کہ مظہر محمود صاحب نے باتوں باتوں میں مجھے یہ اشارہ دیا کہ اگر میں اختر صاحب کی شخصیت کے اوجھل زاویوں پر اس گوشے کے لیے کچھ لکھ سکوں تو اچھا ہو۔ چنانچہ میں نے تعمیل کی۔ حکیم نیر واسطی کا خاکہ لکھنے کی تحریک بھی اُنہی سے ملی۔ وہ چاہتےتھے کہ میں بعض اور کرداروں پر بھی لکھوں مگر یہ کام میرے تساہل کی نذر ہوتا رہا۔

زبان کے بارے میں میرا اور اُن کا زاویہ نگاہ ایک سا تھا۔ وہ لغات کے اندراج سے زیادہ لفظ کے چلن کے قائل تھے۔ میں جب کبھی اُن سے اُردو کے کسی ایسے الفاظ پر بات کرتا جو ہمارے علاقے میں بولا جاتا تھا مگر اب کہیں فرہنگوں میں نہیں ملتا تو وہ کہتے کہ آپ ضرور اسے اپنی تحریر میں استعمال کریں۔ فرہنگوں کو وہ ہرگز حرفِ آخر نہیں سمجھتے تھے۔

علمی شغف بے حد تھا۔ “عربی ادب قبل از اسلام” پر میری لکھی ہوئی اقساط رسالہ “سویرا” میں چھپنی شروع ہوئیں تو ہر قسط کے چھپتے ہی اُس کی فوٹو کاپی الگ محفوظ کرتے جاتے تھے اور بہت پسندیدگی کا اظہار کرتے تھے۔ ان کے ہاں باپ کا تخیل اور دادا کی تحقیقی باریک بینی یکجا ہو گئی تھی اور اس کے علاوہ زندگی پر ایک فراخ اور یکسر ذاتی نگاہ ڈالنے کی صلاحیت اُن کی اپنی تھی۔

تحقیق کرنے بیٹھتے تو گویا داد کی روح ان میں حلول کر جاتی تھی۔ ایک “معرّباتِ رشیدی” کی تدوین و ترجمہ ہی کو دیکھ لیجیے کس قدر عرق فشانی کی ہے۔ پُرانے وقتوں کی یہ ریت بھی نبھاتے تھے کہ مرنے والوں کو مادّہ ہائے تاریخِ وفات نکالتے اور نظم کرتے تھے۔ اس فن کے لوگ اب کتنے رہ گئے ہیں۔ مظہر محمود صاحب کا “مجموعہ گلہائے تاریخ” ۔۔۔۔ جو خود اپنی اشاعت 1441ھ (2019ء) کا مادّہ تاریخ ہے ۔۔۔۔ صرف تاریخ ہائے وفات کے مادّوں تک محدود نہیں بلکہ ولادت، اشاعت اور دیگر یادگار واقعات کو بھی محیط ہے۔ سالم الاعداد مادّے بھی بہم پہنچائے ہیں ور تدخلہ و تخرجہ سے بھی خوب کام لیا ہے۔ میرے دل پر اُس فارسی قطعے نے بہت اثر کیا جس میں مظہر محمود صاحب نے اپنی والدہ ماجدہ کی رحلت کا سال نکالا ہے۔

ایں نقش چہ جاں کاہ برایم بنشست

زیں دارِ فنا مادرِ من رخت بیست

از یمنِ وجودِ آں عفیفہ گوئی

نَہ سالہ بُدم اگرچہ ہستم نَہ وشَصت

از ہستئ اُو بُدم بماضی مربوط

اے وائے مرا رشتہ ز ماضی بگُسَست

چوں فکر پئے سالِ وباتش کردم

از شدتِ غم ہیچ نیامد در دست

از غیب ندا کرد “یکایک” ہاتف

“حُرمت بانو برحمتِ حق پیوست”

۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے لیے یہ کیسا جاں کاہ نقش استوار ہوا

میری ماں اس دارِ فنا سے کوچ کر گئی

اُسی عفیفہ کے ہونے کی برکت سے

یوں سمجھو کہ ساٹھ اور نو کا ہوتے ہوئے بھی

میں صرف نو سال کا تھا

اُس کے ہونے سے میں ماضی سے مربوط تھا

ہائے افسوس ماضی سے میرا رشتہ ٹوٹ گیا

اُس کے سالِ وفات کے لیے خیال دوڑایا

تو شدّت غم سے کچھ ہاتھ نہ آیا

“یکایک” ہاتف نے غیب سے صدا دی

“حرمت بانو برحمتِ حق پیوست”

(حرمت بانو رحمت حق سے جا ملیں)

“حُرمت بانو برحمتِ حق پیوست” سے 1943ء کے اعداد برآمد ہوتے ہیں جن میں “یکایک” کے 61 عدد ڈال کر 2004ء نکلتا ہے جو اُن کا سالِ وفات ہے۔

مظہر محمود صاحب کے ہاں ایک گہری مذہبیت بھی تھی۔ عُمرے سے واپس آ کر ہلکی سی داڑھی بھی رکھ لی تھی اور شعائرِ دینی کا اہتمام بھی بڑھ گیا تھا۔ مگر وہ واعظِ تنگ نظر یا زاہد خشک کبھی نہ بنے۔ وہ اُن لوگوں میں سے تھے جن کے ہاں تقویٰ کا رُخ خود اپنی جانب ہوتا ہے نہ کہ دوسروں کی طرف۔

شخصیت کی ایسی گونا گونی، دل کی ایسی فراخی، اس درجے کا علم و فضل اور ایسی انسان دوستی اب کہاں ملے گی ۔۔۔۔ یہ اور اسی طرح کے اور بہت سے خیالات میرے دماغ میں اُمڈے چلے آ رہے ہیں مگر میرا دل اُن کی وفات کی اطلاع کو ایک افواہ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ میرا جھکاؤ میرے دل ہی کی طرف ہے۔ کسی پیر کے روز صبح کو جا کر خود ان سے اس افواہ کی تردید کرانا باقی ہے۔ بس ذرا یہ وبا درمیان میں حائل ہے۔ خیر بعدِ رفعِ فسادِ ہوا سمجھ لیا جائے گا۔