غزل

یہ تحریر 1049 مرتبہ دیکھی گئی

O

کِھلیں جو گُل تو سُخن کا اسے بہانہ کہیں
اسی بہانے غمِ ذات کا فسانہ کہیں

سُلگ اُٹھے جو تبسّم تو زہر خند بنے
نسیمِ صبح جو مچلے تو تازیانہ کہیں

کہیں کہیں تو کوئی آشنا نظر آئے
کبھی کبھی تو کوئی حرفِ محرمانہ کہیں

خدا کے نام پہ مٹتے بھی ہیں وہ خانہ خراب
جو مسجدوں میں حدیثِ شراب خانہ کہیں