غزل

یہ تحریر 1278 مرتبہ دیکھی گئی

O

تھا درد کا درماں، نہ کسی بات کا حل تھا
کیا زیست کی بنیاد میں خود کوئی خلل تھا

ظاہر پہ نہ جا، کوہکن و قیس تھے ہم بھی
باطن میں وہی سلسلہء دشت و جبل تھا

ہر چند کہ سو جاں پہ گزر جائے خرابی
دل کا اُسی آئینِ شکستہ پہ عمل تھا

خاموش دلِ زار جہانِ گُزراں میں
جو کچھ کہ کہا اُس کے نہ کہنے کا محل تھا

اُترا ہی نہیں دل پہ کوئی آیہ مُحکم
ہر سانس میں اک مَخمصہء ردّوبدل تھا

کیا راز ہے تاثیرِ سُخن کا تری خورشید
نے رنگ قصیدے کا نہ اندازِ غزل تھا