غزل

یہ تحریر 1108 مرتبہ دیکھی گئی

O

دنیا کے ساتھ میں بھی برباد ہو رہا ہوں
کس کس کو کھو چکا ہوں اور خود کو کھو رہا ہوں

کھڑکی کُھلی ہوئی ہے، بارش تُلی ہوئی ہے
آنسو اُمڈ رہے ہیں دامن بھگو رہا ہوں

وہ جس کے ٹوٹنے سے نیندیں اُڑی ہوئی ہیں
وہ خواب جوڑنے کو بن بن کے سو رہا ہوں

ہاں فصل کاٹنے سے کوئی غرض نہیں ہے
آیا کرے قیامت، میں بیج بو رہا ہوں


ہر صبح ایک سی ہے، ہر شام ایک سی ہے
کیا خاک زندگی ہے، اک بوجھ ڈھو رہا ہوں