غزل

یہ تحریر 1236 مرتبہ دیکھی گئی

O

طبع برہم ہے، ہوا تیز ہے، خاک اُڑتی ہے
دل کی آگ اے مرے پیراہنِ چاک، اُڑتی ہے

یاد کس کی ہے کہ کونین کو گھیرے ہوے ہے
کس کی خوشبو یہ، سمک تا بہ سِماک اڑتی ہے

بادہ پیمائی کی اِس فصل میں حاجت نہ رہی
ایک مستی سی تہِ سایہئ تاک اُڑتی ہے

میں ہوں زنداں میں مگر میرے خیالوں کی پری
طوق و زنجیر سے رکھتی نہیں باک اُڑتی ہے


بزم میں جاؤ پر اِس بات سے غافل نہ رہو
ساغرِ دل سے مئے خلوتِ پاک اُڑتی ہے