غزل

یہ تحریر 1132 مرتبہ دیکھی گئی

O

شبِ غُربت میں جو خوشبوئے وطن پاس آئی
دیر تک سانس نہیں، صرف تری باس آئی

جب نوشتوں میں متاعِ دو جہاں بٹتی تھی
میرے حصّے میں یہی شدّتِ احساس آئی

کوئی اُمّید ہے مجھ کو نہ کوئی اندیشہ
آس آئی مرے دل میں نہ کبھی یاس آئی

جب کُھلا سانس لیا ہے مہک اُٹّھا ہے مشام
یہ مرے ہاتھ عجب دولتِ انفاس آئی

جب بھی آئی ہے کبھی اُس نگہِ ناز کی یاد
شیشہء دل کے لیے صورتِ الماس آئی

تو اِسی کُلبہءِ احزاں میں پڑا رہ خورشید
تجھ کو کب صُحبتِ ابنائے زماں راس آئی