غزل

یہ تحریر 879 مرتبہ دیکھی گئی

رنج اتنا کہ جئیں اور مریں ساتھ کے ساتھ
بات ایسی کہ کہیں اور نہ کہیں، ساتھ کے ساتھ

اہلِ دنیا تو نہیں ہم مگر اے اہلِ جنوں
کام دنیا کا بھی کُچھ کر کے چلیں، ساتھ کے ساتھ

کیا تماشا ہے یہ اور کون تماشا گر ہے
شمع و پروانہ، سرِ طاق جلیں ساتھ کے ساتھ

اے صبا شاخ کو چھو کر مرے دل سے بھی گزر
کہ اِدھر زخم، اُدھر پھول کِھلیں ساتھ کے ساتھ

ساتھ ایسا کوئی بھرپور میسّر آئے
رابطے اور نہ درکار رہیں ساتھ کے ساتھ

آنکھ سے آنکھ ملے، حرف کی حاجت نہ رہے
سب نگاہوں سے کہیں اور سُنیں ساتھ کے ساتھ

درمیاں دھار ہو تلوار کی ایسی کوئی
کہ جدا کے ہوں جُدا، اور رہیں ساتھ کے ساتھ

چار سُو دیکھ ہجومِ گُلِ شبنم آلود
آبہم گریہ کریں اور ہنسیں، ساتھ کے ساتھ

تو نہیں ہے تو نہ ہستی نہ عدم کچھ بھی نہیں
جلوہ گر ہو، کہ رہیں اور نہ رہیں ساتھ کے ساتھ

رائگاں جانے نہ دیں ایک بھی ہم قطرہء اشک
کرکے موتی اُسے لفظوں میں جڑیں ساتھ کے ساتھ

لب وہ کھولے تو جھڑیں پھول مسلسل خورشید
اور اُدھر چاند ستارے بھی بنیں ساتھ کے ساتھ