دیباچہ”مضامین پطرس“

یہ تحریر 4179 مرتبہ دیکھی گئی

                پطرس بخاری(۱۸۹۸تا۱۹۵۸) کے بار ے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ان کے مزاح پرانگریزی کا بہت اثر ہے، لیکن خوش گوار اثر ہے۔ یہ بات صحیح ہے لیکن یہ پوری بات نہیں ہے۔ بے شک،پطرس انگریزی کے پروفیسر تھے، اور وہ بھی اس زمانے میں، جب معمولی بی۔اے۔ پاس شخص بھی با محاورہ انگریزی بے تکلف لکھتا اور بولتا تھا۔اور پطرس کے بارے میں سب کہتے ہیں کہ ان کو انگریزی زبان اور ادب پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی اور وہ اپنے علم کو اپنے طالب علموں تک منتقل بھی کر سکتے تھے، یعنی وہ بہت اچھے استاد بھی تھے۔یہ سب باتیں درست ہیں، لیکن ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انھوں نے اپنے مزاح کا اسلوب انگریزی سے حاصل کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پطرس بخاری کی نثر اور مزاح، دونوں کا مزاح ہماری روایت کے اس رنگ کا ایک اظہار ہے جسے نظم میں اکبر الٰہ آبادی اور اقبال نے چمکایا اور روشن کیا تھا اور جسے نثر میں خواجہ حسن نظامی (۱۸۷۸تا ۱۹۵۵) اور مرزا فرحت اللہ بیگ (۱۸۸۴تا۱۹۴۷) نے پروان چڑھایا تھا۔پطرس بخاری کے علاوہ اس طرز کے لکھنے والوں میں رشید احمد صدیقی (۱۸۹۶تا ۱۹۷۷) اور ملا رموزی (۱۸۹۶تا۱۹۵۲) کے بھی نام ہیں۔آج اس طرز کے نمایاں ترےن لکھنے والے مشتاق احمد یوسفی (پیدائش ۱۹۲۳) ہیں جنھوں نے اس کے مختلف پہلوﺅں کو اتنی ترقی دی ہے کہ وہ ایک اپنے ہی رنگ کے موجد بن گئے ہیں۔یہ بات بھی خیال میں رکھنے کی ہے کہ رشید احمد صدیقی،اور ملا رموزی کی پیدائش ایک ہی سال میں ہوئی (۱۸۹۶) ، اور پطرس بخاری ان کے صرف دو سال بعد پیدا ہوئے (۱۸۹۸)۔ لہٰذا یہ تینوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوئے ہوں، یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔

                طنز و مزاح کے جس رنگ کی نمائندگی متذکرہ بالا ادیبوں کے یہا ںنظر آتی ہے، اس میں ”ادبیت“ کا عنصر بہت نمایاں ہے۔ ”ادبیت“ سے مراد یہ نہیں کہ دوسرے طنز و مزاح نگاروں کی تحرےریں ”ادب“ نہیں ہیں۔ ”ادبیت“ سے میری مراد یہ ہے کہ ان سب کے یہاں ادبی حوالے کثرت سے ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ عمومی طور پر اردو ادب سے واقفیت کے بغیر ان لوگوں کی تحریر سے پوری لطف اندوزی ممکن نہیں ہے۔ تےسری بات یہ کہ یہ لوگ زبان کے مضمر امکانات ، یعنی ایہام، رعایت لفظی، جس کا ایک روپ ”ضلع“ یا ”ضلع جگت“ بھی ہے، اور لفظی مناسبتوں کو خوب استعمال کرتے ہیں اور ان کی تحریر سے لطف اندوزی کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ زبان اردو سے ہماری واقفیت بہت اچھی ہو اور ہم میںیہ صلاحیت ہو کہ زبان کی باریکیوں کو بھی سمجھ سکیں۔

                ایسا نہیں کہ ان لوگو ں کے یہاں طنز نہیں ہے۔ طنز بھی ہے، لیکن یہ لوگ مزاح براے مزاح کا فن بھی جانتے ہیں اور انھیں کوئی شگفتہ، دلچسپ فقرہ یا بات سوجھ جائے تو وہ اسے ضرور لکھ ڈالتے ہیں۔یہ بات غور کرنے کی ہے کہ طنز میں بھی وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو ذر ا سی بات میں بھی شگفتگی کا پہلو ڈھونڈ لیتا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی کے چند شعر ان تمام باتوں کی مثال کے لئے کافی ہوں گے

                                ابھی اس راہ سے انجن گیا ہے

                                کہے دیتی ہے تاریکی ہوا کی

                نئی نئی ایجادیں فائدہ مند ہیں، لیکن ان سے نقصان بھی ہوتے ہیں۔ پرانے زمانے میں ریل کے انجن کوئلے سے چلتے تھے اور بہت دھواں چھوڑتے تھے۔ شاید ہی کوئی ہندوستانی ایسا رہا ہو جس نے ریل کے نقصانات میں یہ بھی دیکھ لیا ہو کہ اس سے ماحول میں آلودگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ بات تو شعر کا ایک پہلو ہے۔ اب دوسرا پہلو اس شعر میں دیکھئے

                                ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے

                                کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی

یہ بہت مشہور شعر ہے جو عام طور پر مومن سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن عرش گیاوی نے لکھا ہے کہ در اصل مصرع ثانی مومن کے شاگرد میر حسین تسکین کا ہے۔ تسکین سے مصرع اولیٰ نہین بن رہا تھا تو وہ استاد کے پاس آئے۔ مومن نے فوراً مصرع لگا کر شعر پورا کیا۔اس انتہائی مشہور عاشقانہ شعر کو بدل کر طنزیہ بنا دینا اور وہ بھی جدید مضمون کا حامل کر دینا، یہ طنزیہ مزاحیہ شاعری کی معراج ہے۔اسی طرح، اکبر کا یہ شعر دیکھئے

                                یا الٰہی یہ کیسے بندر ہیں

                                ارتقا پر بھی آدمی نہ ہوئے

                سب جانتے ہیں کہ ڈارون کے نظرےے کے اعتبار سے انسان کئی ارتقائی منزلیں طے کر کے انسانیت کے درجے پر پہنچا ہے۔ ان منزلوں میں ایک منزل Primatesکی بھی تھی، یعنی بندروں کی قسم کے جانور۔ اکبر نے اس خیال کا فائدہ اٹھا کر انگریزوں پر طنز کیا ہے اور اس کی بنیاد محاورے پر رکھی ہے: آدمی بننا/آدمی ہونا۔ اس کے معنی ہیں ”مہذب، شائستہ کردار و اطوار اختےار کرنا۔“ اکبر سے اس محاورے کو لغوی اور محاوراتی دونوں معنی میں استعمال کیا اور مصرع اولیٰ میں بظاہر معصومیت لیکن در اصل چالاکی بھرا استفہامی اور استعجابی لہجہ اختیار کیا۔

                اکبر کا سارا کلام ایسا نہیں ہے، لیکن خاصا حصہ ان کے کلام کا اسی طرز کا ہے۔ اوراسی طرز کو ذرا آگے لے جائیں تو پطرس اپنے مضمون” لاہور کا جغرافیہ“ میں کہتے ہیں:

مختصر مگر جامع الفاظ میں بزرگ یوں بیان کرتے ہیں کہ لاہور لاہور ہی ہے۔ اگر اس پتے پر آپ کو لاہور نہیں مل سکتا تو آپ کی تعلیم ناقص اور آپ کی ذہانت فاتر ہے۔

                یہ جملہ در اصل پنجابی کی ایک مشہور کہاوت پر مبنی ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ پطرس نے اس کہاوت کی مزاحیہ تشریح بھی کی ہے اور اس پر طنز بھی کیا ہے۔ لاہور والوں پر بھی طنز ہے کہ وہ سمجھتے ہیں،ہر شخص کو معلوم ہی ہوناچاہیئے کہ لاہور کیا ہے اور کہاں ہے۔پطرس سے ایک ہزار برس پہلے مشہور شاعر مسعود سعد سلمان لاہوری (۱۰۴۶تا۱۱۲۱) نے لاہور کی تعریف میں بہت سے شعر کہے تھے۔اس کے زمانے میں لاہور کا نام ” لہاوور“ بھی تھا۔ مسعود نے اسے عربی فقرے ”لہا نور“ سے بدل دیا جس کے معنی ہیں ”اس کے لئے روشنی ہے“۔پطرس کو بھی لاہور سے بہت محبت ہے، لیکن وہ اس کا اظہار لاہور اور لاہور والوں کی ہنسی اڑاکر کرتے ہیں۔ یہ انداز ایک حد تک انگریزی مذاق سے متاثر کہا جاسکتا ہے، لیکن شہروں کی تعریف میں ہمارے یہاں بھی بہت سے بڑے بڑے شاعروں نے نثر و نظم لکھی ہے۔ یہ رسم ہندوستانی ہے، انگلستانی نہیں۔

                پطرس آگے لکھتے ہیں:

لاہور پنجاب میں واقع ہے۔لیکن پنجاب اب پنج آب نہیں رہا۔اس پانچ دریاﺅں کی سر زمین میں اب صرف ساڑھے چار دریا بہتے ہیں اور جو نصف دریا ہے ، وہ تو اب بہنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اصطلاح میں اسے راوی ضعیف کہتے ہیں۔ملنے کا پتہ یہ ہے کہ شہر کے قریب دو پل بنے ہیں ۔ان کے نیچے ریت میں یہ دریا لیٹا رہتا ہے۔ بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے۔

                طنز، اور تھوڑے سے مزاح کے رنگ میں پطرس اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ نہریں نکالے جانے اور عام آلودگی کے باعث درےاے راوی کا پانی اب بہت کم ہو گیا ہے اور جہاں پانی ہونا چاہیئے وہاں اب صرف ریت ہے۔ صنعتی ترقی کے نقصانوں میں ماحولیاتی آلودگی اور پانی کی خرابی اور کمی بھی ہے۔ یہ احساس ہمیں اکبر الٰہ آبادی کے یہاں ملتا ہے اور ہم اسے پطرس کے یہاں بھی دیکھتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اکبر کا لہجہ بہت تیز اور اندرونی غم سے بھرا ہوا ہے۔ اکبر کے بر خلاف پطرس ہنس بول کر اپنی بات کہتے ہیں اور بہت خوب کہتے ہیں۔غم تو پطرس کو بھی ہے، لیکن وہ اسے دل میں دبا لیتے ہیں، اوپر نہیں آنے دیتے ۔ اسے بھی شاید ایک حد تک انگریزی اثر کہہ سکتے ہیں۔

                اورآگے دیکھئے۔ اکبر نے ”آدمی بننا/آدمی ہونا“ کے محاورے کو نئے معنی میں استعمال کیا تھا۔ پطرس بخاری نے ”راوی ضعیف“ کی مذہبی اصطلاح کو نئے معنی دے دیئے ہیں۔ حدیث اور تاریخ کی اصطلاح میں ”ضعیف“ راوی (یعنی روایت کنندہ، بیان کرنے والا) وہ ہوتا ہے جس کی بات ہمیشہ قابل اعتبار نہیں ہوتی۔ محتاط علما ایسے راویوں کی بیان کردہ باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔پطرس کے مضمون میں چونکہ درےا کا نام بھی ”راوی“ ہے۔ لہٰذا وہ خشک ہوتے ہوئے دریا کے لئے ”راوی ضعیف“ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، یعنی درےاے راوی اب پہلے جیسا ذخار اور پر شور نہیں رہ گیا ہے۔ یہاں مزاح کی تہ میں طنز سے زیادہ غم جھلکتا معلوم ہوتا ہے۔چند جملوں کے بعد پطرس نے لاہور کے بڑھتے ہوئے رقبے کے بارے میں یوں لکھا ہے:

 اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے اور روز بروز واقع تر ہورہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ دس بیس سال کے اندر لاہور ایک صوبے کا نام ہوگا جس کا دار الخلافہ پنجاب ہو گا۔ یوں سمجھئے کہ لاہور ایک جسم ہے جس کے ہر حصے پر ورم نمودار ہو رہا ہے لیکن ہر ورم مواد فاسد سے بھرا ہے۔

                اس غیر معمولی تحریر کی داددینے کے لئے کئی پیرا گراف درکار ہوں گے۔ بس اسی پر بس کرتا ہوں کہ ”واقع تر ہو رہا ہے“کا لطف لینے کے لئے اس بات کو نظر میں رکھئے کہ اس میں مزاح بھی ہے اور رنج بھی اور ایک طرح کی مایوسی بھی۔ ”واقع ہونا“ گویا بری چیز ہے اور اس کی زیادتی کو بیان کرنا یوں ہی ممکن ہے کہ اس کو صفت کے طور پر استعمال کر کے اس کے ساتھ ”تر“ لگایا جائے، جیسے ”بہتر، بدتر، خوش تر،سنگین تر“ وغےرہ، ویسے ہی ”واقع ہونا“ کی بھی کثرت ہو سکتی ہے۔ اسی لئے کہاگیا ہے کہ مزاح کی بنےاد بے تکے پن پر، یعنی incongruityپر ہے۔

                ڈاکٹر محمد صادق یوں تو انگریزی کے پروفیسر تھے لیکن انھوں نے اردو ادب کے متعلق کئی مشہور کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی سب سے مشہور کتاب اردو ادب کی تاریخ ہے جو آکسفورڈ سے A History of Urdu Literature کے نام سے دو بار شائع ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر صادق صاحب کا نقطہ نظر عام طور پر انگریزی اصول و خیالات پر مبنی ہے۔ انھوں نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ پطرس کا بہترین مضمون”کتے“ہے۔ میں اس خیال سے اتفاق نہیں کرتا۔”کتے“ نہایت عمدہ مضمون ہے، لیکن ”لاہور کا جغرافیہ“ اس سے بہت بہتر ہے اور اسے پطرس کا بہترین مضمون کہا جا سکتا ہے۔ بہر حال، ”کتے “کے بارے میں بھی یہ خیال ہو سکتا ہے کہ انگریزی طرز کا مضمون ہوگا، کیونکہ وہاں بھی چھوٹی چھوٹی چیزوں اور روز مرہ کی باتوں پر مضمون لکھنے کا رواج عام ہے۔ لیکن ہمارے یہاں تو خواجہ حسن نظامی اس طرح کے مضامین کی بنیاد بہت پہلے ڈال چکے تھے۔ ”دیاسلائی“، ”جھینگر“ وغےرہ ان کے بہت سے مضامین ناقابل فراموش ہیں۔ بہر حال، ”کتے“ سے کچھ اقتباس دیکھتے ہیں:

کتا وفا دار جانور ہے۔ اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار بغےر دم لئے صبح کے چھہ بجے تک بھونکتے چلے گئے، تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔کل ہی کی بات ہے کہ رات کے گیارہ بجے ایک کتے کی طبیعت جو ذرا گدگدائی تو انھوں نے باہر سڑک پر آکر ”طرح“ کا ایک مصرع دے دےا۔ ایک آدھ منٹ کے بعد سامنے کے بنگلے سے ایک کتے نے مطلع عرض کردیا۔ اب جناب ایک کہنہ مشق استادکو جو غصہ آیا ، ایک حلوائی کے چولھے سے باہر لپکے اور پوری غزل مقطع تک کہہ گئے۔ اس پر شمال مشرق کی طرف سے ایک قدر شناس کتے نے زوروں کی داد دی۔ اب تو حضرت وہ مشاعرہ گرم ہوا کہ کچھ نہ پوچھئے۔کمبخت بعض تو دو غزلے سہ غزلے لکھ لائے تھے۔ کئی ایک نے فی البدیہہ قصیدے کے قصیدے پڑھ ڈالے۔

                اس میں کوئی شک نہیں کہ محلے کے کتوں کے ایک ساتھ بھونکنے پر، خاص کر اگر کوئی اجنبی شخص سامنے آجائے، پطرس کی یہ تحریر لا جواب ہے۔ شاعروں پر طنز کے ساتھ کتوں کے بھونکنے سے لطف اندوز ہونے کا بیان اس چھوٹی سی عبارت میں اس قدر عمدہ ہے کہ گوےا بولتی ہوئی تصویر سی کھنچ گئی ہے۔ اور خاص بات یہ کہ کتوں سے بیزاری کا کہیں شائبہ تک نہیں، اور مشاعرے کے شاعروں پر طنز الگ، کہ وہ غزل پر غزل سنائے جاتے ہیں، چاہے سامعین تنگ آگئے ہوں۔

اب دوسرا اقتباس دیکھئے:                                                                                         

چونکہ ہم طبعاً ذرا محتاط ہیں اس لئے آج تک کتے کے کاٹنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔یعنی کسی کتے نے ہم کو نہیں کاٹا۔اگر ایسا سانحہ کبھی پیش آیا ہوتا تو اس سر گذشت کے بجائے آج ہمارامرثیہ چھپ رہا ہوتا۔تاریخی مصرع ، دعائیہ ہوتاع

                                                کہ اس کتے کی مٹی سے بھی کتا گھاس پیدا ہو

لیکن

                                                کہوں کس سے میں کہ کیا ہے سگ رہ بری بلا ہے

                                                مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

                اس عبارت کے متعلق فی الحال یہ کہہ کر بس کرتا ہوں کہ کتا گھاس والا مصرع حضرت ذوق کے ایک مصرعے کی مٹی خراب کر کے حاصل ہوا ہے اور شعر تو خیر مشہور ہی ہے کہ غالب کا ہے۔

                لیکن ادبیت، خوش طبعی، طنز، جھنجھلاہٹ لیکن مزیدار جھنجھلاہٹ کے یہ سب انداز تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک ایسے شخص کے یہاں بھی مل جائیں گے جس کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ ہر وقت منھ بسورتا اور آہیں بھرتا پڑا رہتا ہے۔ ہنسنا تو بڑی چیز ہے، وہ مسکرانا بھی نہیں جانتا۔ مولوی عبد الحق سے لے کر مجنوں گورکھپوری تک نے یہی لکھا ہے۔میری مراد میر تقی صاحب میر سے ہے۔ اب میر کی دو مثنویوں کے کچھ شعر آپ ملاحظہ کریں

                                ہو گھڑی دو گھڑی تو دتکاروں

                                ایک دو کتے ہوں تو میں ماروں

                                چار جاتے ہیں چار آتے ہیں

                                چار عف عف سے مغز کھاتے ہیں

                                کس سے کہتا پھروں یہ صحبت نغز

                                کتوں کا سا کہاں سے لاﺅں مغز

                                                                (در ہجو خانہ خود)

                                                ٭

                                کتوں کے چاروں اور رستے تھے

                                کتے ہی واں کہے تو بستے تھے

                                دو کہیں ہیں کھڑے کہیں بیٹھے

                                چار لوگوں کے گھر میں ہیں پیٹھے

                                 ایک نے پھوڑے باسن ایکو نے

                                کھود مارے گھروں سے سب کونے

                                گلہ گلہ گھروں میں پھرنے لگے

                                روٹی ٹکڑے کی بو پہ گرنے لگے

                                ایک نے آکے دیگچہ چاٹا

                                ایک آیا سو کھا گیا آٹا

                                ایک نے دوڑ کر دیا پھوڑا

                                پھر پیا آکے تیل اگر چھوڑا

                                                (تسنگ نامہ)

                پطرس کی بڑائی اس بات میں ہے کہ انھوں نے بہت کم لکھا، لیکن اس کم ہی میں اتنا زیادہ کہہ دیا کہ طنز اور مزاح کے سارے امکانات سامنے آگئے۔

٭٭٭