(۵)
اقبال نے اس صدی کے شروع میں شاعری شروع کی تھی۔ان کے کم و بیش ساتھ ساتھ منظر عام پر آنے والے شعرا میں کم ہی ایسے ہیں جن کا نام لوگوں کو خالص ادبی وجوہ کی بنا پر یاد رہا ہے۔حسرت موہانی، یگانہ،عزیز لکھنوی،سرور جہان آبادی، فانی، چکبست،سیماب اکبر آبادی یہ فہرست اس سے آگے بمشکل ہی بڑھ سکے گی۔اور صاف نظر آتا ہے کہ اقبال ان سب سے میلوں بلند تر ہیں،بلکہ اقبال کے ساتھ ان کا کوئی با معنی موازنہ بھی نہیں ہو سکتا۔اقبال اس معنی میںخوش نصیب تھے کہ ان کے معاصروں میں دور دور تک بھی کوئی ان کے مقابل آنے کی اہلیت نہ رکھتا تھا۔ان کے برخلاف، اختر الایمان کی نسل کو اقبال کے بعد آنے والی تمام نسلوں میںسب سے زیادہ توانا، با صلاحیت اور کامیاب نسل کہا جاجائے تو غلط نہ ہوگا۔فیض، میرا جی، راشد،سردار جعفری، مجید امجد، اختر الایمان، یہ سب ۱۹۱۰ سے لے کر ۱۹۱۵ کے درمیان پیدا ہوئے۔ان کا آپسی تعلق اور تقابل اور تناسب ایسا تھا کہ یہ سب ہی صلاحیت اور لیاقت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت قریب تھے۔جہاںاقبال کے سامنے کوئی مد مقابل نہ تھا،وہاں ۱۹۱۰ سے ۱۹۱۵ کے درمیان صرف پانچ برسوں کی مدت میں متولد یہ شعرا ہر اعتبار سے ایک دوسرے کے مقابل آسکتے تھے۔ اختر الایمان کی نسل کو اپنی شناخت بنانے اور اپنی حیثیت کو قائم کرنے سے اقبال سے بہت زیادہ مشکل پیش آئی۔اس پر طرہ یہ کہ اختر الایمان کا سفر(شاید مجید امجد کو چھوڑ کر)بقیہ معاصروں میں سب سے زیادہ تنہا تھا اور با اثر،فیشن ایبل حلقوں سے دور تھا۔ اختر الایمان نے بدلتے ہوئے فیشنوں کا بھی کوئی لحاظ نہ کیا۔ترقی پسندوں نے غزل سے اصولی اختلاف کیا تھا،لیکن پھر کسی اصولی مفاہمت یانظری دلیل کے بغیر انھوں نے غزل کو اختیار بھی کر لیا۔ اختر الایمان نے جو نظم کو اپنا شعار بنایا تو آخر تک وہ اسی پر قائم رہے۔
جس زمانے میں ترقی پسندی کا ہجوم اور ”عوامی شاعری“ کا غلغلہ خراب شاعری کو کاندھوں پر اٹھائے اٹھائے گھوم رہا تھا، اختر الایمان نے کنج خمول سے قدم باہر نہ نکالا۔جب جدیدیت کا دور دورہ ہوا اور جدید شعرا نے اختر الایمان کو اپنا بزرگ، پیش رو اور اہم استاد کہا اور ان کے بارے میں تحریر و تقریر کا سلسلہ شروع ہوا،تو بھی اختر الایمان نے قبولیت عام کے شوق میں آکر اپنا رنگ نہ بدلا اور نہ ہی محفلوں اور سیمیناروںمیں اپنا رنگ چوکھا کرنے کی کوشش کی۔اور نہ ہی انھوں نے اپنی نظم گوئی کی رفتار کچھ تیز کی۔شہرت کی خاطر ہر طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرنے والوں کے اس دور میںکسی شاعر کاصرف شاعری کے بوتے پر پچاس پچپن برس تک گرم رہنا اور آخر کار خود کو منوا لینااس کے برحق ہونے کی دلیل ہے۔
اختر الایمان نے ایک غیر مطبوعہ نظم چار مسودوں کی شکل میں چھوڑی۔ ممکن ہے وہ ابھی اس پر مزید محنت کرتے۔ یہ چاروں مسودے ”کلیات اختر الایمان“ مرتبہ سلطانہ ایمان اور بیدار بخت (دہلی، ۲۰۰۰)شامل کئے گئے ہیں۔ میں انھیں وہاں سے نقل کرتا ہوں،کچھ تو یہ دکھانے کے لئے کہ اختر الایمان اپنی نظموں پر کس قدر محنت کرتے تھے،اور کچھ یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ اس نظم کے آخری مسودے کو اختر الایمان کا آخری بیان قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
ایک نظم
( پہلا مسودہ )
میں صدق دل سے تیری ذات کے ہونے کا قائل ہوں
مرا ایمان ہے تےرے فرشتوں پر،رسولوں پر
کتابوں پر جو وقفے وقفے سے آتی رہیں ان پر
ایک نظم
( دوسرا مسودہ )
میں صدق دل سے تیری ذات کے ہونے کا قائل ہوں
مرا ایمان ہے تےرے فرشتوں پر،رسولوں پر
کتابوں پر، ہدایت کے لئے بھیجی ہیں جو تو نے
جزاے خیر وشر پر،حشر پر، جس دن اٹھوں گا میں
رداے خاک اوڑھے اس زمیں کی آخری تہ سے
یہ زیر ناف گھونسہ مارنے کی کیا ضرورت تھی
یہ شیطاں کیوں کھڑا ہے راہ روکے، تخلیق کے دن سے
بلا عنوان
( تیسرا مسودہ )
میں تیری ذات کے ہونے کا قائل ہوں
مرا ایمان ہے تیرے فرشتوں پر
رسولوں پر ہدایت کے لئے بھیجے ہیں جو تو نے
میں صدق دل سے تیری ذات کے ہونے کا قائل ہوں
تری اقلیم کے سارے اصولوں پر
کتابوں پر ہدایت کے لئے بھیجی ہیں جو تو نے
جزاے خیر و شر پر،حشر پر،جس دن میں اٹھوں گا
رداے خاک اوڑھے اس زمیں کی آخری تہ سے
حمد
(چوتھا مسودہ)
میں صدق دل سے تیری ذات کے ہونے کا قائل ہوں
مراایمان ہے تیرے فرشتوں پر،رسولوں پر
تری اقلیم کے سارے اصولوں پر
ہوا میں گیت گاتے خوش نما رنگیں پرندوں پر
بھنور کی بات سن کر کھلکھلاتے ہنستے پھولوں پر
نگار صبح کی رعنائی، باد مشکبو کی انجمن سازی
زمیں کی وسعتوں میں رقص کرتے ان بگولوں کی
دلاتے یاد ویرانوں میں ان سرکش جوانوں کی
جو جہد للبقا کے ہر سمند باد پا کی باگ موڑیں گے
جزاے خیر و حشر پر، حشر پر، جس دن میں اٹھوں گا
رداے خاک اوڑھے اس زمیں کی آخری تہ سے
یہ زیر ناف گھونسہ مارنے کی کیا ضرورت تھی
کھڑا ہے راستہ روکے ہوئے شیطان کیوں تخلیق کے دن سے
۳۰ مارچ ۱۹۹۴
نوٹ: اوقاف بعینہ وہی ہیںجو ”کلیات“ میں ہیں، اور اغلب ہے کہ وہ اختر الا یمان ہی کے اختیار کردہ ہوں گے۔
ظاہر ہے کہ نظم ابھی مکمل نہیں ہے۔اس کی آخری شکل کے بارے میں قیاس لگانا غیرضروری ہے اور اسی وجہ سے اس نظم کا تجزیہ بھی غیر ضروری ہے۔یہ بات ،کہ اختر الایمان اپنی شاعر ی پر کس قدر محنت کرتے تھے، میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں۔اور یہ بات بھی میں نے پہلے ہی آپ کے گوش گذار کردی ہے کہ اس نظم کو اختر الایمان کا آخری بیان کہا جا سکتا ہے،لیکن بیان بہر حال نامکمل ہے۔ میر سے لے کر اقبال اور اختر الایمان اور راشد تک سب کو خدا سے شکوہ رہا ہے لیکن ہر ایک کا شکو ہ ا پنے طرز کا تھا،کسی کو کسی سے مطابقت نہیں۔مجھے تو میر کا شکوہ سب سے بھر پور، سب سے زیادہ معنی خیز، اور شعری اعتبار سے سب سے زیادہ مکمل لگتا ہے، شاید اس وجہ سے دو مصرعوں میں بہت لمبی بات کہہ دینے کا ہنر میر سے بہتر ہم میں سے کسی کو نہ آیا۔ علامہ شبلی نے فارسی کے ہندوستانی تازہ گو شعرا کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی خصوصیت تھی کہ وہ بہت لمبی چوڑی بات کو لپیٹ کرد و مصرعوںمیں بیان کر دیتے تھے۔ میر بھی سبک ہندی کے شاعر ہیں، لیکن ان کی صفت یہ بھی ہے کہ فارسی کے تازہ گو شعرا (اور اردو میں غالب) جب بات کہتے تھے تو ذہن فوراً متوجہ ہو جاتا تھا کہ بھلا کیا حیرت انگیز، یا خیال انگیز بات کہی! میرکاا نداز بہت فریب کارانہ ہے۔وہ بظاہر سرسری کہہ کر نکل جاتے ہیں اور سننے والے یا پڑھنے کو خیال بھی نہیں آتا کہ کیسی گہری بات کہہ دی گئی ہے۔ میر کا شعر ہے ، دیوان اول
کوئی ہو محرم شوخی ترا تو میں پوچھوں
کہ بزم عیش جہاں کیا سمجھ کے برہم کی
اختر الایمان شایدخدا کونہیں، شیطان کو برہم کن محفل حیات بتانا چاہتے ہیں ،لیکن شیطان بہر حال بندہ خدا ہے، اور تمام بندہ ہاے خداساری برائی اور ساری خباثت کا منبع ہیں۔ اختر الایمان کے لہجے مےں کوئی شکایت،کوئی برہمی نہیں، لیکن کوئی فلسفیانہ موشگافی بھی نہیں۔حیات اور کائنات کا معما کسی کی عقل سے حل نہیں ہوسکاع
کہ کس نکشود و نکشاید بحکمت ایں معما را
لیکن جو اقبال نے کہا تھا ، وہ بھی اختر الایمان کو منظور نہ تھا
نے مہرہ باقی نے مہرہ بازی
جیتا ہے رومی ہارا ہے رازی
آخری زمانے کی ایک نظم میں اختر الایمان زندگی ، اور نہ صرف زندگی بلکہ اس سارے ہنگامہ ہاے و ہو سے بیزار، یا آزردہ نظر آتے ہیں۔ ملک قمی کا شعر ہے
باکم از آشوب محشر نیست می ترسم کہ باز
ہم چو شمع کشتہ باید زندگی از سر گذشت
اس کو میر، اور شیخ مبارک آبرو نے بھی کہا ہے
زندگانی تو ہر طرح کاٹی
مر کے پھر جیونا قیامت ہے
میر نے اس سے بڑھ کر کہا ہے (دیوان اول)
خوف قیامت کا یہی ہے کہ میر
ہم کو جیا بار دگر چاہیے
ان تینوں شعرا کے یہاں زندگی از سر کرنے سے انکار اس وجہ سے ہے کہ ایک زندگی ہی کون بڑی کامیاب اور پر تعیش تھی کہ دوسری کو قبول کیا جائے؟ میر نے البتہ زندگی ہی کی حقیقت کو ناقابل قبول ٹھہرایا ہے۔ اب اختر الایمان کی نظم ملاحظہ ہو:
ماضی استمراری
ہم جہانگیر،جہاندار تھے کب
خسرو عصر، بڑے اہل سبب
آسماں اوڑھا، زمیں کا بستر
پھیلا رہنے دیا اوروں کے لئے
سانس تو لیتے رہے،یاد نہیں کیسے جئے
دیکھنا اب جو مری خاک پلٹ کر آئے
اور کسی طرح مرے جینے کا سامان بنے
جس طرح پہلے کیا،ویسے ہی کرنا لوگو
اپنے دروازے کبھی کھولنا مت میرے لئے
نظم کا ابہام ہمیں کچھ تشویش میں مبتلا کرتا ہے۔ متکلم شروع میں تو یہ کہتا ہے کہ میں نے زندگی میںکچھ حاصل نہ کیا۔ وہ خسرو عصر اور اہل سبب میں نہ تھا، لیکن وہ جی تو گیا۔ زمین کے ذخائر اور وسائل اس نے اوروں کے لئے چھوڑے، لیکن وہ آسمان تو اوڑھتا رہا (یعنی کسی عارفانہ نہج سے زندگی گذارتا رہا)۔ پانچویں مصرعے میںکوئی اور بات نظر آتی ہے ۔ شاید یہاں سے دوسرا متکلم نظم میں داخل ہوتا ہے۔اور یہ متکلم پہلے والے سے کچھ مختلف زندگی گذارتا رہا ہے۔اسے یاد بھی نہیں کہ زندگی کیسے اور کیسی گذری ۔اور یہی متکلم وہ ہے جسے واپسی کا خدشہ بھی ہے۔پہلی بار وہ کسی نہ کسی طرح جی گیا تھا، حالانکہ دنیا کے دروازے اس پر کھولے نہیں گئے تھے(جیسے کہ فرانز فاننFranz Fanonکے وہ لوگ جنھیں وہ :
The wrteched of the earth
کہتا ہے۔)مگر پھر بھی اسے واپسی کا خوف ہے اور اچانک ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ متکلم تو کسی اور ہی زبان میں بات کررہا ہے: وہ تو اس حدیث کی بات کو دہرارہا ہے جس کی رو سے اللہ دنیا والوں سے کہے گا کہ میں تمھارے دروازے پر گیا لیکن تم نے مجھے لوٹا دیا۔ (اور یہی ہر بار ہوگا۔عنوان ”ماضی استمراری“ میں یہی نکتہ پوشیدہ ہے۔)نظم عجب پر اسرا ر اور پر ہیبت سا تاثر چھوڑ جاتی ہے۔ اختر الایمان کی ذاتی آواز کچھ کہتی ہوئی سنائی دیتی ہے اوردو کے علاوہ کوئی تیسرا متکلم بھی در آتا ہے اور وہ کچھ اور کہتا ہوا سنائی دیتا ہے۔انسانی زندگی کا المیہ شاید یہی ہے کہ آوازوں کے ہجوم میں آواز ٹھیک سے نہیں سنائی دیتی۔ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر متکلم صرف ایک ہے، تو پھر یہ نظم شاعر کا المیہ، اور اس طرح تمام دنیا کے فنکاروں کا المیہ ظاہر کرتی ہے کہ دنیا انھیں کبھی قبول نہیں کر سکتی۔ قبول کرنا تو در کنار، وہ انھیں جاننا بھی پسند نہیں کرتی۔صائب کا کیا عمدہ شعر ہے
ز تیرہ روزی اہل سخن بود روشن
کہ نیست آب حیاتے بغیر آب سخن
آب حیات کچھ نہیں ہے، صرف آب سخن ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اہل سخن کا زمانہ ہمیشہ تاریک رہتا ہے۔ آب حیات کے چشمے کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ جہاں ہے وہاں انتہائی تاریکی ہے۔اختر الایمان کی نظم کو بھی ایک طرح شکوے کی نظم کہہ سکتے ہیں،لیکن اس شکوے میں برہمی کا تموج اور طنزکی تلخی بھی ہے، کہ اصول زیست یہی ہے کہ جو شخص بھی مادی افادہ پرستی کی بات نہ کرے وہ دنیا کے لئے بے مصرف ٹھہرایاجائے گا۔میرصاحب اپنے پیچ دار شعر پر فخر کرتے ہوں گے لیکن جس شعر سے پیچ یا پیچ کش کاکام نہ لیا جاسکے وہ فضول محض ہے۔
اخترالایمان کا ایک شعر مجھے لڑکپن کے زمانے سے یاد ہے
اب ارادہ ہے کہ پتھر کے صنم پوجوں گا
تاکہ گھبراﺅں تو ٹکرا بھی سکوں مر بھی سکوں
یہ شعر اختر الایمان کے کسی مجموعے میں نہیں ہے۔میں نے کسی رسالے میں پڑھا ہوگا یا کسی نے مجھے سنایا ہوگا(یہ امکان زیادہ قوی ہے)۔اب ’باقیات اخترالایمان‘ سے معلوم ہوا کہ جس نظم میں یہ شعر ہے اس کا نام ’تنہائی‘ ہے۔ یہاںفیض کی نظم ’تنہائی‘ کا خیال آنا فطری ہے، کچھ اس وجہ سے بھی کہ اختر الایمان کے شعر میں بھی ایک محزونی ہے، ایک طرح کی خاموشی ہے۔ لیکن فیض کی نظم بہت مختصر اور استعاروں سے بھری ہوئی اور مبہم ہے۔فیض کی کمزوریاں اس میں بھی نمایاں ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے نظم انتہائی خوبصورت ہے اور حافظے میں پیوند ہوجانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اخترالایمان کی نظم خود بہت اچھی نہیں ہے اور ذہنی اور جذباتی اعتبار سے کچھ خام لگتی ہے۔لیکن جگہ جگہ ایسے زبردست پیکر چمک اٹھتے ہیںکہ دل دہل جاتا ہے
دن کے بستر پہ ہیں دھبے سے ریا کاری کے
اور مغرب کی فناگاہ میں پھیلا ہواخون
دبتا جاتا ہے سیاہی کی تہوں کے نیچے
اختر الایمان کا یہ سنگ دل، کھردرا لہجہ زندگی بھر ان کی شاعری کو توانائی پہنچاتا رہا۔عمر کے ساتھ رومانی حزن گھٹتا رہا اور صلابت و قوت بڑھتی گئی۔اخترالایمان نے اس نظم کو غالباً اسی لئے کسی مجموعے میں نہ رکھا کہ ایک تقریباً ضرب المثل شعر کے باوجود نظم میں وہ قوت نہ تھی جو اوپر نقل کرد ہ مصرعوں کو سہار سکے۔میر کی طرح ’ناسازی‘ اور ’خشونت‘رومانی پلپلے پن سے دور بھاگتی ہے۔ ’ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر‘ صرف ایک سطح پر رومانی نظم ہے، ورنہ در حقیقت یہ انسانی تنہائی کے کائناتی المیے کی تصویر ہے۔ایسی تصویربنانے کے لئے فیض نہیں، راشد بھی نہیں، اختر الایمان جیسا بے باک اور کھری بات کہنے والاشاعر درکار تھا
٭٭٭
شمس الرحمٰن فاروقی
نوٹ: اس مضمون کے کچھ حصے ۱۹۹۴ میں ، کچھ ۲۰۱۲ میں ، کچھ ۲۰۱۵ میں اور کچھ ۲۰۱۶ میں لکھے گئے تھے ۔اب اسے یہاں نظر ثانی کے بعد پیش کیا گیا ہے۔ موجودہ صورت میں یہ مضمون غیر مطبوعہ ہے۔
شمس الرحمٰن فاروقی