اختر الایمان کی شاعری

یہ تحریر 2497 مرتبہ دیکھی گئی

(۴)

                کم لوگوں کواس بات کا احساس ہے کہ ”تغزل“ کی اصطلاح ہمارے کلاسیکی تذکروںمیں موجود نہیں۔ کیا اردو کیا فارسی، غزل کی تمام روایت ”تغزل“ سے بے خبر ہے۔اور آج مغرب میں بھی یہ حال ہے کہ Lyricکا لفظ صرف فلمی گانوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اور آج کوئی مغربی نقاد کسی شاعر کے یہاں Lyricismنہیں ڈھونڈتا۔لیکن ہمارے نظریہ ساز صاحبان اب بھی Lyricism اور ”تغزل“ کا اکتارا بجائے جارہے ہیں۔شاعری کی زبان (یا خود زبان)کی اس غلط تفریق کا نتیجہ یہ نکلا کہ اختر الایمان اور راشد جیسے سنجیدہ شعرا کو غزل سے شکایت پید اہوئی۔اور وہ چیزیں بھی جو پرانی شاعری میں عام ہیں،ہمارے لئے ممنوعہ ، بلکہ معتوب ٹھہرادی گئیں۔اور جو چیزیں بالکل سامنے کی تھیں،انھیں ترک کردیا گیا۔اس طرح شاعری کسی زندہ اور توانا حقیقت کے بجاے محض ممنوعات کی فہرست بن گئی۔وہ لفظیات جسے اختر الایمان نے ”کنوار پن کی خوشبو“ کا حامل ٹھہرایا ہے، اور جسے جے۔ایم۔سنگ(J.M.Synge)نے بہت پہلے ”عام بول چال کی خوشبو اور اس کا آہنگ “بتایا تھا،ہماری شاعری سے غائب ہونے لگی۔فیض کی شاعری کی مقبولیت نے ہمارے یہاں شاعری کو صرف سجے سجائے،چمکتے ہوئے شیشہ آلات اور فرش فروش سے آراستہ دیوان خانے کی چیز بناڈالا۔ہر وہ فقرہ، ہر وہ پیکر، ہر وہ استعارہ، جو ”طبائع نازک“ پر گراں گذرے، فیض کے یہاں مفقود ہے۔

                ایسے ”محفوظ“ لہجے پر پالے پوسے ہوئے ادبی معاشرے کو میرا جی کی شدید درون بینی، پیکر وں سے متمول ان کی زبان، حواس خمسہ کی دولت سے مالال مال شاعری،اور راشد کی بین الاقوامی فضا، ان کی فارسی آمیز زبان، ان کے بے دھڑک موضوعات، بھلا کہاں اچھے لگ سکتے تھے؟اختر الایمان کا تو معاملہ اور بھی مختلف ہے،کہ وہ بظاہر ”فن کارانہ توانگری“ سے عاری ہیں۔ان کے یہاں جگمگاتے ہوئے الفاظ، فارسی ترکیبیں،چونکا دینے والے استعارے نہیں۔لیکن ان کی بظاہر بے رنگی ہی ان کی رنگا رنگی ہے۔ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا،اختر الایمان کو اس بات کا دکھ رہا ہے کہ ان کو سمجھنے والے بہت کم ہیں۔اور اسی دکھ نے انھیں غزل کی روایت اورلفظیات کا شاکی بنا دیا ہے۔لیکن قصور غزل کی روایت اور لفظیات کا نہیں،ہماری ادبی تہذیب کا ہے جس نے غلط بنیادوں پر شاعری کی زبان کا ڈھانچا تعمیر کرنے کی کوشش کی۔مجید امجد اور اخترالایمان ان توقعات کوپورے نہیں کرتے جنھیں”تغزل“کی توقعات کہا جانا چاہیئے۔یہی وجہ ہے کہ میرا جی کو تو خیر جنسی الجھنوں کا مریض کہہ کر ٹال دیا گیا،لیکن مجید امجد اور اختر الایمان جیسے شعرا نظر انداز کئے گئے اور انھیںاپنے قاری کے لئے جدید نسل کا انتظار کرنا پڑا۔راشد تو پھر بھی اچھے رہے کہ مجتبیٰ حسین کے اس الزام کے باوجود کہ ان کے یہاں ”ناسخیت“ ہے (گویا ناسخیت کوئی خراب بات ہے)،راشد کو فارسیت سے شغف اور ان کی نظم کے بالکل نمایاں مفکرانہ رنگ نے بالکل مسترد ہوجانے سے بچائے رکھا۔

                انجمن ترقی اردو نے ۱۹۴۳ میں ”انتخاب جدید“ کے نام سے جدید شاعری کا ایک انتخاب شائع کیا تھا۔آل احمد سرور اور عزیز احمد اس کے مرتب تھے۔اس کے دیباچے میں عزیز احمد نے لکھا:

                اس مجموعے کا معیار میں نے یہی قرار دیا کہ صرف ایسی نظمیں شامل کی جائیں جو کسی طرح بیسویں صدی کے خیالات کا مظہر ہوں (یا ان کا رد عمل پیش کریں)اور نظموں کا معیار یہ ہو کہ اگر کسی غیر زبان میں ترجمہ کی جائیں تب بھی زبان سے قطع نظر ایک خاص چیزہوں۔

                مندرجہ بالا دعووں میں پہلا تو غیر ادبی ہے،اور دوسرے کے پیچھے یہ خواہش (بلکہ تمنا) کار فرما ہے کہ جدید اردو ادب اور سب کچھ تو ہو لیکن اردو ادب نہ رہے۔ان باتوں پر بحث اور کسی وقت کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔اس وقت یہ کہنا مقصود ہے کہ اس مجموعے میں ساغر نظامی، اثر صہبائی اور اصغر گونڈوی تو ہیں، میرا جی، اختر الایمان اور مجید امجد نہیں ہیں۔آج کا قاری اس بات کو ہرگز قبول نہ کرے گا کہ ساغر نظامی، اصغر گونڈوی اور اثر صہبائی کے یہاں تو بیسویں صدی کے خیالات (یا ان کا رد عمل) موجود ہے اور اختر الایمان ، میرا جی اور مجید امجد اس صفت (اگر یہ کوئی صفت ہے) سے محروم ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ آل احمد سرور اور عزیز احمد جیسے قاری شعر فہم نہیں تھے۔اس کے باوجود اگر انھوں نے اختر الایمان ، میرا جی اور مجید امجد کو نظر انداز کیا تو اس کی یہی وجہ تھی کہ ان کی شاعری اپنے وقت سے آگے کی چیز تھی۔

                ایسا نہیں کہ اختر الایمان کا ڈرامائی اور بے تکلف گفتگو کے آہنگ پر مبنی لہجہ شروع کی نظموں میں بھی اتنا ہی واضح تھا جتنا آج ہے۔حلقہ ارباب ذوق کے شعرا پر حالی اور آزاد کی بنائی ہوئی شعریات کا کچھ اثر (زبان کی حد تک)تو تھا ہی،اور یہی وجہ ہے کہ میرا جی حلقہ ارباب ذوق سے ایک حد تک الگ دکھائی دیتے ہیں،کیونکہ وہ اس زبان کو مکمل طور پر مسترد کرتے تھے جس کی بنیاد حالی اور آزاد وغیرہ کی ”نیچرل شاعری“نے ڈالی تھی۔لیکن اختر الایمان کے یہاں شروع شروع میںکچھ متانت،احتیاط، یا ”شائستگی“ کے انداز تھے۔فرق صرف یہ ضرور ہے کہ جہاں حلقے کے شعرا (یا کم از کم میراجی)نظم کے متکلم اور شاعر کو ایک قرار دیتے تھے اور ہر نظم کو لا محالہ شاعر کے ذاتی تجربات کا اظہار سمجھ کر پڑھتے تھے(اس کی تفصیل میراجی کی بے مثال کتاب”اس نظم میں“ میں دیکھی جاسکتی ہے)،اختر الایمان کے کلام میں شروع ہی سے اپنے موضوع سے تھوڑی بہت دوری ،یا ڈرامائی فاصلہ نظر آتا ہے۔مثلاً ”گرداب “ (۱۹۴۳) کی ایک نظم ”محرومی“ اور ”تاریک سیارہ“ (۱۹۵۲) کی ایک نظم ”محبت“ کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں:

                تو بھی تقدیر نہیں درد بھی پائندہ نہیں

                تجھ سے وابستہ وہ اک عہد وہ پیمان وفا

                رات کے آخری آنسو کی طرح ڈوب گیا

                خواب انگیز نگاہیں وہ لب درد فریب

                ایک افسانہ ہے جو کچھ یاد رہا کچھ نہ رہا

                                                (”محرومی“)

                صرف تبدیل ہوتی ہوئی روشنی کی جھلک زندہ ہے

                صرف حسن ازل اور حسن ابد کی مہک زندہ ہے

                صرف اس طائر خوش نوا کی لہک زندہ ہے

                ایک دن آئے گا تو بھی مرجائے گی میں بھی مرجاؤں گا

                                                (”محبت“)

                دوسری نظم میں موضوع سے شاعر کاڈرامائی فاصلہ زیادہ نمایاں ہے۔یہاں نہ تو متکلم اور شاعر کو متحد قرار دینا ضروری ہے ،اور نہ مخاطب کو شاعر /متکلم کی محبوبہ سمجھنا ضروری ہے۔”محرومی“میں پہلا مصرع نظم کو ذاتی واردات سے الگ نکال لے جاتا ہے۔دونوں نظموں میں لا شخصیت (یعنی اپنی شخصیت سے الگ کھڑے ہو کر معاملے کو سمجھنے کی کوشش)نظر آتی ہے۔اس کے باوجود، ان نظموں پر حلقہ ارباب ذوق کا اثر صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ابھی ان نظموں کے اسلوب میں وہ ٹھن ٹھناہٹ نہیں ہے جو جلی،تپائی ہوئی ،سیاہی مائل سخت اینٹ میں ہوتی ہے۔ ان نظموں میںوہی گلابی سرخی ہے جو نیم پختہ اینٹ میں ہوتی ہے۔یہ نظمیں اس طرح کی چوٹ یا shockنہیں پہنچاتیںجو مثلاًبعد کی نظموں ”خمیر“؛”کارنامہ“؛”مفاہمت“؛”لوگو،اے لوگو“ وغیرہ کا خاصہ ہے۔تقابل کے لئے یوسف ظفر کی مشہور نظم ”وادی نیل“ کا اقتباس ملاحظہ ہو:

                کہ میں ہوں وہ موت کا مسافر

                ترے شبستاں کے چور دروازے سے گذر کر

                جو اپنی منزل پہ آگیا ہے

                وہ لوگ جو رو رہے ہیں مجھ کو

                کہ میں نے خود موت کو پکارا ہے تیری خاطر

                وہ لوگ کیا جانیں زندگی کو

                انھیں خبرکیا کہ موت ہر لحظہ ان کی ہستی کو کھا رہی ہے

                انھیں خبر کیا کہ زندگی کیا ہےمیں سمجھتا ہوںزندگی کو

                کہ آج کی شب یہ زندگی میری زندگی ہے

                یہ زندگی ہے مری جسے میں نے آج کی شب

                ترے مسرت کدے میں لا کر

                ابد سے ہم دوش کر دیا ہے

                اجل کو خاموش کردیا ہے

                اس بات سے فی الحال قطع نظر کرتے ہیں کہ یوسف ظفر کے یہاں غیر ضروری الفاظ کی کثرت ہے، اور الفاظ کی غیر ضروری تکرار بھی ہے۔ لیکن نظم کا متکلم بہت سے بہت کوئی روایتی قسم کا ”رومانی“ ہیرو معلوم ہوتا ہے۔وہ تجربہ کار اور تفکر انگیز نہیں، بلکہ سیدھا سادہ بھولا بھالا نوجوان ہے جو فریب خوردہ ہے اور اسی فریب کو وہ معرفت سمجھتا ہے۔یہ نظم فوری طور پر اختر الایمان کی نظم ”محبت“سے موازنے کا تقاضا کرتی ہے۔”محبت“اختر الایمان کی اچھی نظموں میں ہے،لیکن بہترین نظموں میںنہیں۔اس کے باوجود ہم فوراً دیکھ سکتے ہیں کہ ”محبت“ کا انداز زیادہ پر اعتماد ہے اور روایتی ”رومانیت“سے دور ہے۔اس کا متکلم زیادہ با تمکین ،زیادہ تجربہ کار ہے۔انسان کی تقدیر یہی ہے کہ اسے اور تمام انسانی اشیا کو موت کے گھاٹ اترنا ہے۔اس انجام پر ”محبت“کے متکلم کو خوف و ہراس کچھ نہیں۔یوسف ظفر کی نظم کا متکلم بلند بانگ دعووں اور ظاہری جوش و خروش کے باوجود کوئی نا بالغ (یعنی ذہنی طور پر نابالغ)شخص ہے۔ اختر الایمان کی نظم کا متکلم موت کو انگیز کرنے کی سکت رکھتا ہے۔یوسف ظفر کی نظم کا متکلم جس شے کے لافانی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے (زندگی جو ابد سے ہم دوش ہے اور جس نے اجل کو خاموش کردیا ہے)


©وہ اس قدر غیر قطعی اور موہوم ہے کہ ہم صاف دیکھ سکتے ہیں کہ وہ محض خیالی، اور فرضی تسکین کا دھوکا ہے۔ اختر الایمان کے متکلم کی آواز میں وزن اور وقار ہے،وہ کسی رومانی فریب کا شکا ر نہیں ہے۔ان کا متکلم ” حسن ازل اور اور حسن ابد“ یعنی شاعر کی نظم، یا مغنی کے نغمے وغیرہ کے بارے میں دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ رہیں گے،لیکن یہ صاف ظاہر ہے کہ ان کی زندگی بے مصرف ہے،کیونکہ خود متکلم اور اس کی معشوقہ دونوں ہی موت کی آغوش میں جانے ہی کے لئے بنائے گئے ہیں۔پھر ان کی شاعری اور نغمہ کس کام کا؟ رہا ” حسن ازل اور اور حسن ابد“، تو اس کی مہک کا ذکر عجز نظم نہیں ہے تو وہ محض لفاظی ہے،اس سے کسی کو یوں بھی کچھ ملنانہیں،کہ خوشبو نہ دکھائی دیتی ہے اور نہ ٹھہرتی ہے۔اور ”حسن ازل اور اور حسن ابد“ تو یوں ہی تجریدی اور موہوم چیز ہیں ۔ان سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا۔

                اختر الایمان جس لہجے کے لئے بجا طور پر مشہور ہیں، وہ کسی پختہ کار اور غیر جذباتی متکلم کا لہجہ ہے جس میںتشکیک کی کارفرمائی اکثر ہے،لیکن جو ”اعلیٰ اردو“ کی فارسی آمیز چمک دمک سے عاری ہے۔ ڈرامائی،طنزیہ،لیکن خود ترحمی اور چھچھورے پن سے بالکل خالی یہ لہجہ صرف اس معنی میں ڈرامائی نہیں ہے کہ اختر الایمان کی اکثر نظمیں ڈرامے کے مکالمے کی طرح بولی جاسکتی ہیں۔یہ بات تو ہے ہی،لیکن اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ اختر الایمان کا متکلم کوئی ایک شخص نہیں معلوم ہوتا،اور وہ متکلم خود شاعر اختر الایمان بھی نہیں۔ شاعر اختر الا یمان تو شاید ہی کسی نظم میں، حتیٰ کہ ان کی بظاہر اپنی سوانح سے متاثر نظم ”ایک لڑکا“میں بھی ہمارے سامنے نہیں آتا۔ اس معاملے میں وہ راشد سے مختلف ہیں،کیونکہ راشد اپنی اکثر نظموں میں پر جوش، معاملے (یا موضوع)سے پوری طرح دست وگریباں، اور ذاتی احساس کی گرمی سے دمکتے ہوئے ،اور کسی شعلے کی طرح بر افروختہ، یا کسی شمشیر برہنہ کی طرح سب کو چکا چوند کرتے نظر آتے ہیں۔راشد صاحب نے بار بار اس خیال کی تردید کی ہے کہ ان کی نظمیں ان کی ”سوانح حیات“ ہیں۔اور یہ بات بالکل درست ہے،لیکن یہ بات پھر بھی ہے کہ وہ اپنی نظم کے موضوع، یا اپنے تجربے اور خیال سے پوری طرح گتھے ہوئے نظر آتے ہیں۔اگر انگریزی لفظ لکھا جائے تو راشد صاحب کے روئیے کو اپنی نظم کے ساتھ Fully engagedکہا جائے گا۔

                اختر الایمان کا لہجہ کہیں کہیںراشد سے ملتا ہوا دکھائی دیتا ہے (خاص کر شروع کی نظموں میں، جیسا کہ ”قلوبطرہ“ سے ظاہر ہے)۔اور ان کی موجودہ نظموں میں راشد کے روئیے کی جھلک کہیں کہیں نظر آجاتی ہے:وہی معاصر دنیا کا شدید احساس، اور اس احساس کو بیان کرنے کی سعی میں ہلکے یا گہرے طنز آمیزش،کلام میں وہی زور اور عدم انفعالیت،جو راشد کابھی خاصہ ہےں۔لیکن اختر الایمان کا لہجہ سپاٹ، بظاہر کسی جذبے سے عاری ،اور”غیر نفیس“ ہے۔ان کے یہاں راشد کی طرح کی تزئینی کیفیت نہیں ہے۔راشد کے خال خال استثنا کے علاوہ ان کے اسلوب کی مثال نہیں لائی جا سکتی۔وہ کسی مکتب، یا کسی شاعر کے پیرو نہیں ہیں اور وہ خود کسی مکتب کے بانی بھی نہیں ہیں۔ان کا اسلوب ایسا ہے جس کی نقل نہیں ہو سکتی۔(ممکن ہے اس میں ان کے لہجے کی ڈرامائیت کو بھی قابل لحاظ دخل ہو۔ )ویسے، عام شعر اتو ان کی تکلف اور فارسیت سے عاری لفظیات ہی سے بدک جائیں گے اور جو ذرا زیادہ با ہمت ہیں،وہ بھی ان کے خشک اور کھردرے لہجے سے گھبرا اٹھیں گے۔

                آج(یعنی ۱۹۹۴ میں،جب اس مضمون کے کئی حصے لکھے گئے تھے) اختر الایمان ہمارے سب سے بڑے، سب سے زیادہ با مرتبہ شاعر ہیں۔اور یہ بات توجہ کے قابل ہے کہ ان کے معاصردو بڑے شعرا میں فیض اور سردار جعفری میں رومانیت پوری طرح جاری و ساری تھی۔رومانیت سے میری مراد محض عشقیہ مضامین سے دلچسپی نہیں، بلکہ کسی آدرش پراعتقاد ہے، اورایسا اعتقاد جو شاعر کو کسی اور نقطہ نظر،کسی اور امکان،کی طرف دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مجید امجد اور میرا جی بھی رومانی نہیں ہیں،کیونکہ وہ کسی آدرش کی (اندھے یااندھا دھند)پابندی نہیں کرتے۔شروع کی چند نظموں کے سوا راشد کے یہاں بھی عشقیہ (یا جنسی) نظمیں خال ہی خال ہیں۔اختر الایمان نے شروع شروع میں کچھ عشقیہ نظمیں کہیں لیکن وہ بہت جلد اس اندا ز سے اکتا گئے۔ ہمارے زمانے کے بڑے شعرانے عشقیہ نظمیں بہت کم کہی ہیں۔لیکن کسی نے بھی وہ تکلف سے عاری اور گفتگو کے لہجے کے قریب انداز نہیں اختیار کیا جو اختر الایمان کا خاص نشان ٹھہراہے۔کسی کے بس میں زبان اس طرح اور اس حد تک ہے ہی نہیں کہ وہ اختر الایمان کا حریف ہو سکے۔                  اختر الایمان کے یہاں شگفتگی، یا زندگی سے لطف اندوزی کے احساس کا فقدان ہے۔اس کے بجاے ان کے یہاں فریب شکستگی،معاصر انسان سے مایوسی، خود غرضی اور جارحیت اور تشدد سے معاصر انسان کے لگاﺅ کے خلاف رنج اور برہمی نمایاں ہےں۔یہ برہمی کبھی کبھی شدت اختیارکر کے نفرت کے درجے کو پہنچ جاتی ہے۔لیکن یہ نفرت کسی حکیم اخلاقیات،کسی واعظ،یا کسی ناصح کی نہیں۔ اکثر تو خود شاعر (اور نظم کا متکلم تو یقیناً)ہی اس کا ہدف معلوم ہوتا ہے۔یہ متکلم ایسا شخص ہے جس نے کبھی دنیا میں امن، عافیت، محبت اور یگانگت کی امید کی تھی۔ یہ امید پہلے آرزو میں بدلی اور پھرشکست آرزو کی تلخی میں بدل گئی۔ اختر الایمان نے وقت کو سب سے بڑے مجرم کی شکل میں دیکھنا چاہا، کہ شاید اس طرح معاصر انسان اس فرد جرم سے بچ سکے جو تاریخ بے شک اس پر عائد کرے گی۔لیکن یہ آخری امید بھی جاتی رہی اور اختر الایمان کی حالیہ شاعری میں خودانسان کے مجرم ہونے کا احساس بہت شدید ہوگیا ہے۔گذشتہ تیس برس میں اختر الایمان کی شاعری( اورشاید شخصیت بھی)خیالی آدرشوں کی امید افزائیوں سے بہت جلد گذر کر انسانی وجود کی بے رنگی اور زندگی میں کم کوش احتیاط پر رنج کے اظہار کی راہوں سے ہوتی ہوئی کرب ناک تلخی اور مستقبل سے مایوسی کی منزل تک پہنچی ہے (اگر اسے منزل کہاجاسکے۔)ان کی شاعری کا یہ سفر ہمارے زمانے کی تاریخ پر ایک درد ناک حاشیہ ہے۔اب انھیں عارضی مسرت بخشنے والی چیزیں بھی اپنے گردو پیش میں بہت کم نظر آتی ہیں۔