(۲)
یہ تو کوئی کہنے بات نہیں ہے کہ اختر الایمان کی شاعر ی غور اور فکر کی طلب گار ہے۔لیکن یہ بات ضرور کہنے کی ہے کہ بعض نقادان سخن نے بھی ان سے شکوہ کیا کہ آپ کی نظمیں سمجھ میں نہیں آتیں۔یہ بات انھوں نے اس انٹرویو میں بھی کہی ہے جو ’شب خون‘ میں ۱۹۹۸ میں شائع ہوا۔لیکن کیا یہ بات ہمارے تنقیدی شعور اور ہمارے طرز قرأت کے لئے افسوس کی بات نہیں کہ ہم شاعر سے شکایت کریں کہ آپ کی نظم سمجھ میں نہیں آتی، لیکن ہم خود اس کی نظموں پر غور سے گریز کریں؟بعض حالات میں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ اختر الایمان کا کلام راشد اور میرا جی سے بھی زیادہ غور و فکر کا مطالبہ کرتا ہے۔
’سوغات‘ کے جدید نظم نمبر میں اخترالایمان کی کچھ نظموں پر تجزیہ شائع کیا گیا تھا۔ اس نمبر میں شامل تمام نظموں کی طرح ان نظموں کے شاعر کا نام تجزیہ نگار سے مخفی رکھا گیا تھا۔ ایک سیدھی سادی نظم ’نیا شہر‘ کے بارے میں تجزیہ نگار نے تین باتیں کہیں۔اول تو یہ کہ نظم کا ’خیال توعمدہ ہے‘ لیکن شاعر نے ’نظم کے اسلوب (Diction)کی طرف پوری توجہ نہیں دی ہے‘، اور ’بعض اشعار تو صحافتی انداز کے حامل ہیں۔‘ تجزیہ نگار کے خیال میں ’نظم کا مرکزی نکتہ یہ ہے فرد اپنے گھراورسماج کے بندھنوں میں جکڑا ہوا ہے… ]وہ[آزاد منش آدم ہے جو…ہر قسم کے بندھنوں اور رشتوں کو پرے پھینک دینا چاہتا ہے۔‘تجزیہ نگارنے نظم کا بنیادی خیال ہی نہیں سمجھا، اور نہ اس بات پر غور کیا کہ شاعر کا ’اسلوب‘ پہلے ہی مصرعے سے کھردرا، بیانیہ اور ڈرامائی ہے۔اس نے ’شعریت‘ سے بالقصد اجتناب کیا ہے، اس حد تک، کہ پہلی قرأت میں یہ بھی محسوس نہیں ہوتا کہ نظم پابند ہے اور مقفیٰ ہے۔
اس نظم کے تجزیہ نگار کی شہرت شاعر کی حیثیت سے بھی بہت تھی،لیکن معلوم ہوتا ہے یہاں انھوں نے اپنی تنقیدی نظر کو دھندلا ہی رکھنا چاہا۔یہ تو عام طور پر شاعر کے ساتھ ہوتا ہے کہ جب وہ کسی نظم کا تجزیہ کرنے بیٹھتا ہے تو وہ زیر بحث نظم میں یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ اگر وہ نظم اس نے کہی ہوتی تو وہ اس کے نفس موضوع (یا مرکزی خیال)کو کس طرح،یعنی کس نقطہئ نظر سے دیکھتا۔ایسا ہی کچھ شاید یہاں بھی ہوا ہے۔ اب ضروری ہے کہ ہم بھی اخترالایمان کی زیر بحث نظم دیکھ لیں:
نیا شہر از اخترالایمان
جب نئے شہر میں جاتا ہوں وہاں کے در وبام
لوگ وارفتہ سراسیمہ،دکانیں بازار
بت نئے راہنماؤں کے پرانے معبد
حزن آلود شفا خانے مریضوں کی قطار
تار گھرریل کے پل بجلی کے کھمبے،تھیٹر
راہ میں دونوں طرف نیم برہنہ اشجار
اشتہار ایسی دواؤں کے ہر اک جا چسپاں
اچھے ہو جاتے ہیں ہر طرح کے جن سے بیمار
اس نئے شہر کی ہر چیز لبھاتی ہے مجھے
یہ نیا شہر نظر آتا ہے خوابوں کا دیار
شاید اس واسطے ایسا ہے کہ اس بستی میں
کوئی ایسا نہیں جس پر ہو مری زیست کا بار
کوئی ایسا نہیں جو جانتا ہو میرے عیوب
آشنا،ساتھی،کوئی دشمن جاں دوست شعار
تجزیہ نگار نے اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ نظم کا مرکزی خیال نہ صرف جدید شاعری، بلکہ تمام ہند-فارسی شاعری (یعنی سبک ہندی کی شاعری) میں رواں دواں ہے۔انھوں نے اگر عرفی کا یہ شعر سنا ہوتا تو اختر الایمان کی یہ نظم انھیں بالکل واضح اور شفاف لگتی ؎
بد نامی ما شہرہ عالم شدہ شادیم
کیں ملک غریب است کس از مردم مانیست
اختر الایمان کی نظم میں شہر تو ویسا ہی ہے جیسے کہ شہر ہوتے ہیں: بد صورت،ہر طرح کی برائی اور جھوٹ سے لدا ہوا۔لیکن متکلم اس شہر میں اجنبی ہے۔یہاں کوئی ایسا نہیں جس کی ذمہ داری اس کے اوپر ہو،کوئی اس کی اچھائی برائی سے واقف نہیں،نہ کوئی دوست نہ دشمن۔ یہی وجہ ہے کہ نیا شہر اسے اپنے ’خوابوں کا دیار‘نظر آتا ہے۔
ایک مدت ہوئی اختر الایمان نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ میری نظم میں علامت کی کارفرمائی ہوتی ہے،اگر اسے غور سے نہ پڑھا جائے تو اس کے معنی واضح نہ ہو ں گے۔اس ضمن میں انھوں نے اپنی نظم ”قلوبطرہ“ کی مثال دی تھی۔یہ نظم ان کے پہلے مجموعے ”گرداب“(۱۹۴۳) میں شامل تھی، اب اس کی تخلیق کوستر برس سے اوپر ہو رہے ہیں۔اسے یہاں نقل کرنا اور اس پر تھوڑی سی گفتگو کر لینا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا:
قلوبطرہ
شام کے دامن میں پیچاں نیم افرنگی حسیں
نقرئی پاروں میں اک سونے کی لاگ
رہگذر میں یا خراماں سرد آگ
یا کسی مطرب کی لے،اک تشنہئ تکمیل راگ
ایک بحر بے کراں کی جھلملاتی سطح پر
ضو فگن افسانہ ہاے رنگ و نور
نیلے نیلے دو کنول موجوں سے چور
بہتے بہتے جو نکل جائیں کہیں ساحل سے دور
چاند سی پیشانیوں پر زر فشاں لہروں کا جال
احمریں اڑتا ہوا رنگ شراب
جم گئی ہیں اشعہ ئصد آفتاب
گردنوں کے پیچ وخم میں گھل گیا ہے ماہتاب
عشرت پرویز میں کیا نالہ ہاے تیز تیز
اڑ گیا دن کی جوانی کا خمار
شام کے چہرے پہ لوٹ آیا نکھار
ہوچکے ہیں ہو رہے ہیں اوردامن داغدار
اس کا زریں تخت سیمیں جسم ہے آنکھوں سے دور
جام زہر آلود سے اٹھتے ہیں جھاگ
چونک کر انگڑائیاں لیتے ہیں ناگ
جاگ انطونی محبت سو رہی ہے جاگ جاگ
یہاں پہلی بات تو یہ ہے کہ لفظیات کے لحاظ سے یہ نظم کچھ کچھ راشد اور کچھ اقبال کی یاد دلاتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہیئت کی سطح پر اختر الایمان نے یہاں بھی وہی کام کیا ہے جو ۱۹۸۹ کی نظم (”اپاہج گاڑی کا آدمی“)میں کیا تھا۔پہلے تو یہ توقع ہوتی ہے کہ ہر بند کا پہلا مصرع چار رکنی اور بقیہ مصرعے سہ رکنی ہوں گے،جیسا کہ پہلے بند کے تین مصرعوں میں ہے۔لیکن فوراً ہی ہم دیکھتے ہیں کہ بند کا چوتھا مصرع بھی چار رکنی ہے،اور آئندہ بھی ہمیں یہی نظر آتا ہے۔یعنی اس نظم کے ہر بند کا پہلا اور چوتھا مصرع چہار رکنی اور بقیہ مصرعے سہ رکنی ہیں۔اب ہیئت یوں بنی ہے:
ایک چار رکنی مصرع؛دو سہ رکنی مصرعے؛دو چار رکنی مصرعے؛دو سہ رکنی مصرعے؛دو چار رکنی مصرعے؛دو سہ رکنی مصرعے؛دو چار رکنی مصرعے؛دو سہ رکنی مصرعے؛دو چار رکنی مصرعے؛ دو سہ رکنی مصرعے؛ایک چار رکنی مصرع۔
صاف ظاہر ہے کہ نظم کی دائروی ہیئت میں کچھ معنی پنہاں ہیں۔اختر لایمان کے قول کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس ہیئت کو زمانی، یا وقت کی علامت کے طور پر اختیار کیا گیا ہے۔جو ہوچکا ہے،وہی پھر ہوگا۔قلوپطرہ پھر خودکشی کرے گی، انٹونی پھر دیر سے پہنچے گا۔یہی علامتی معنی نظم کے ہر بند میں کسی نہ کسی نہج سے بر آمد ہوتے ہیں۔محبت اور موت دونوں ایک ہیں،اور یہ وحدت بار بار ہمارے سامنے آتی ہے۔
اس وقت سے لے کر اب تک اختر لایمان کے یہاں کئی اہم تبدیلیاں رو نما ہوئی ہیں۔مثلاً،اب وہ شعوری طور علامتی یا استعارہ اختیار کرنے کے بجا ے پوری نظم میں استعاراتی،یا اسطوری فضا تیار کرتے ہیں۔یعنی اب ان کی نظم کسی مرکزی علامت کے گرد قائم ہونے کے بجاے خودایسا نظا م بن جاتی ہے جو زندگی کی حقیقت کو سمجھنے یا سمجھانے کاکام کرتا ہے۔ اس طرح دیکھیں تو ان کی مشہور نظم”باز آمد“در اصل وقت کے گذرنے اور چیزوں کے بدلنے کا مرثیہ ہے۔نظم یوں شروع ہوتی ہے:
تتلیاں ناچتی ہیں
پھول سے پھول پہ یوں جاتی ہیں
جیسے اک بات ہے جو
کان میں کہنی ہے خاموشی سے
اور ہر پھول ہنسا پڑتا ہے سن کر یہ بات
دھوپ میں تیزی نہیں
ایسے آتا ہے ہر اک جھونکا ہوا کا جیسے
دست شفقت ہے بڑی عمر کی محبوبہ کا
اور مرے شانوں کو اس طرح ہلا جاتا ہے
جیسے میں نیند میں ہوں
منظر میں لطیف خنکی اور طرب آمیز تحرک ہے۔”بڑی عمر کی محبوبہ“ میں شاید تھوڑاسا طنز، یا عمر کے اتارکا احساس ہے،لیکن ہر چیز اپنی جگہ پر اچھی ہے۔اس وقت ہمیں یہ خیال نہیں آتا کہ تتلیاں اور پھول، دونوں ہی چند روزہ ہیں، بلکہ اس سے بھی کم ہیں۔اورتتلی تو بہر حال اپنے مقصد حیات کی تکمیل کی تلاش میں بہت جلدکہیں اور نکل جائے گی۔اس وقت تو نظم ہمیں ایک طرح کا فریب دیتی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ براؤننگ(Robert Browning) کے بد نام گیت Pippa Passesکے الفاظ میں:
The year’s at the spring,
And day’s on the morn;
Morning’s at seven;
The hill-side is dew pearled;
The lark’s on the wing;
The snail’s on the thorn;
God’s in his heaven–
All’s right with the world!
سب کچھ خوب، بہت ہی خوب ہے۔لیکن کھیل کود، چہل اور ہنسی کا یہ ماحول نظم کے نصف اول تک ہی بر قرار رہتا ہے۔ متکلم کو اپنے بچپن کی محبت اور محبوبہ (جس کانام ”حبیبہ“بھی کچھ معنی رکھتا ہے) کی تلاش ہے۔جب وہ کہیں نظر نہیں آتی تو:
میں کبھی ایک کبھی دوسرے جھولے کے قریں جاتا ہوں
ایک ہی کم ہے،وہی چہرہ نہیں
آخرش پوچھ ہی لیتا ہوں کسی سے بڑھ کر
کیوں حبیبہ نہیں آئی اب تک؟
لڑکیاں ہنسنے لگتی ہیں کہ یہ شخص کس قدر بے خبر ہے۔وہ اسے بتاتی ہیں کہ اس کا تو بیا ہ بھی ہو گیا، بڑی دھوم دھام سے بارات آئی تھی۔متکلم کچھ محجوب، کچھ اداس، آگے کو بڑھ جاتا ہے،اپنی یادوں میں گم۔اچانک:
بھیڑ ہے بچوں کی چھوٹی سی گلی میں دیکھو
ایک نے گیند جو پھینکی تو لگی آکے مجھے
میں نے جا پکڑا اسے،دیکھی ہوئی صورت تھی
کس کا ہے؟ میں نے کسی سے پوچھا۔
یہ حبیبہ کا ہے،رمضانی قصائی بولا
وہ ننھی سی لڑکی جو متکلم کی ہمجولی اور غیر شعوری (یا شاید شعوری)سطح پر اس کی محبوبہ (حبیبہ؟)تھی،اب امتداد زمانہ کے ساتھ خود ایک بچے کی ماں بن گئی ہے۔اس خبر کا بیان کرنے ولا رمضانی قصائی وقت کی علامت ہے جو ہمیں اس المناک امتداد کی خبر دیتا ہے۔ لیکن لفظ ”قصائی“ کی معنی خیزی کوہمیں اس بات سے غافل نہ کرنا چاہیئے کہ حبیبہ کے بچے میں حبیبہ کی جھلک ہے۔ متکلم نے اس بچے کو کبھی دیکھا نہ تھا،لیکن اس کی صورت ”دیکھی ہوئی صورت“تھی۔ متکلم یہ نہیں کہتا کہ اس کی صورت حبیبہ سے مشابہ تھی،وہ کہتا ہے کہ صورت ”دیکھی ہوئی“ تھی۔ماضی کسی نہ کسی لمحے میں حال بھی بن سکتا ہے۔لیکن وقت ایک سفاک اور بے خیال فاعل ہے۔وقت کو اس بات کا احساس نہیں کہ اس کے ہاتھوں کن کن چیزوں کا خون ہوتا رہتا ہے۔رمضانی قصائی کو خیال بھی نہیں کہ اس کے اس مختصر جملے ”یہ حبیبہ کا ہے“میں کتنی باتوں اور کتنی چیزوں کا خون پنہاں ہے۔ 0 �-9ط