(سید مُحمد رفیق اور اقبال کھتری کی تصاویر پر ایک تحریر)
2017 میں پاکستانی عکس کار مُبین انصاری نے پاکستان میں سکونت پذیر اقلیتوں پر اپنی کتاب White in the Flag: A Promise Forgotten شائع کی۔ اِس کتاب سے بُہت پہلے کراچی کے ریہائشی دو نوجوان عکس کار، سید مُحمد رفیق اور اقبال کھتری، سندھ کے پسماندہ علاقوں میں بسنے والے ہندو قبائل کی تصویر کشی شروع کر چُکے تھے۔ یہ دونوں کسی نُمائش یا سیاحتی جریدے کے لیے تصاویر جمع نہیں کر رہے تھے۔ بلکہ ان کا مقصد ایک پاکستانی اقلیت کی روزمرہ زندگی کو دیکھنا، اُن کی خوشی غمی سے آگہی حاصل کرنا اور رسوم و رواج سے واقف ہونا تھا۔ لیکن بات اِن عاجزانہ شروعات سے کہیں آگے بڑھ گئی۔ کیمرے نے نہایت خاموشی سے آمنے سامنے بیٹھے عکس کاروں اور ہندو قبائل کے درمیان حائل مذہبی فرق اور سماجی عدم اعتماد کی خلیج کو پاٹ دیا۔ شدید موسم میں سہولیات سے عاری شکارپور، تٙھر اور ہنگلاج کی ہندو آبادیوں میں بھٹکتے سید محمد رفیق اور اقبال کٙھتری کی لگن کو اقلیتی ہندو برادری نے قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اِن کو دیگر دور دراز مُقامی بستیوں کے ساتھ ساتھ اپنی انتہائی نجی مذہبی تقریبات میں شرکت کی دعوت دی۔ اگلے چند برسوں پر مُحیط اس یاترا میں پاکستانی ہندو برادری کے رنگ اور موسیقی میں رٙچے تہواروں کے ساتھ ساتھ سید مُحمد رفیق اور اقبال کٙھتری نے ہندو برادری کی تعلیمی پسماندگی اور معاشی کسمپُرسی کو بھی تصویر کرنے لگے۔ ان تصاویر میں تٙھر میں پانی کی قلت کا شکار ہندو آبادی اور وبائی امراض کے نتیجے میں مرنے والے بچوں کے المناک واقعات بھی شامل تھے۔ ان سانحات کو سنسنی خیز بگاڑ کا موضوع بنانے کی بجائے دونوں عکس کاروں نے اپنے عدسے کا فوکس مسائل سے نبرد آزما ہندو برادری کے عزم و ہمت پر مرکوز رکھا۔
دُنیا بھر میں اقلیتوں کو عموماً غیر محفوظ تصور کیا جاتا ہے لیکن ڈنمارک کا فلسفی، شاعر اور جدید فلسفہ وجودیت کا بانی سورن کائیکرگارڈ لِکھتا ہے “اقلیت ہمیشہ اکثریت سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ اقلیت اپنی مُدلل رائے رکھتی ہے۔ اکثریت اس لیے کمزور ہوتی ہے کیونکہ اُس کے لیڈر ٹولے کی طاقت عموماً زُعم پر مبنی اور رائے غیر مُدلل ہوتی ہے۔” ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد دُنیا بھر کی اقلیتیں شدید عدم اعتماد کا شکار ہوئیں ہیں۔ ہر جگہ سرحد پار بڑھتی ہوئی مداخلت کی بنا پر انسان بہت تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے کٙٹ کر متنفر ہونے لگے ہیں۔ ان حالات میں اقلیتی تحفظ کے قوانین برائے نام پرچار کے لیے تو موجود ہیں لیکن حقیقت میں ان کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ پشاور کے ایمل خان کا وادیِ کالاش جا کر کالاشی خواتین کو ہراساں کرنا اسی تباہ حال اکثریتی ذہنیت کا پرتو ہے۔
ڈیجٹل انفارمیشن اور کنٹرولڈ ڈیٹا کو حقیقی علم کا مُتبادل سمجھ لینے کے بعد دُنیا شاید نظریاتی عہد کا سورج ڈوبتا دیکھ رہی ہے۔ آج کی دُنیا میں پاکستانی سرزمین پر قدیم تہذیبی تمدن کی باقیات کی آخری جھلک کو محفوظ کرنے والے سید مُحمد رفیق اور اقبال کٙھتری ویسا ہی اہم کام رہے ہیں جیسا امریکی عکس کار ایڈورڈ کرٹس Edward S Curtis نے امریکیوں کے ہاتھوں نسل کُشی کا شکار ریڈانڈین قبائل کی تصویر کشی کر کے کیا تھا۔ ان دونوں کی تصویر کشی معدوم ہوتی اقلیتی ثقافت کے رہن سہن کو دکھانے تک محدود نہیں ہے بلکہ اکثریتی مسلمان مُلک میں ہر داخلی اور خارجی بُحران سے نفع کمانے والے نام نہاد اسلام پسند طبقے کی ہراسیمگی کا شکار ہندووں میں اس احساس کو بھی تقویت دیتی ہے کہ کروڑوں پاکستانی اپنے اقلیتی ہم وطنوں کو محفوظ اور برابری کے حقوق مِلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی فنکارانہ جدوجہد خالصتاً نظریاتی ہے۔ پاکستان کا مُثبت چہرہ یہ دونوں عکس کار ذاتی وسائل اور جذبے سے لیس کئی سال سے بغیر کسی ادارے کا سہارا لیے دُنیا کو دِکھا رہے ہیں۔ انھوں نے سندھ میں مُقیم ہندو برادری کے درد کو شاعرانہ حساسیت کے ساتھ تصویر کیا ہے۔ ان کی تصاویر میں اُس والہانہ بھروسے کی واضع رمق موجود ہے جو ہندو برادری نے ان دونوں پاکستانی عکس کاروں پر کیا۔
مکمن ہے اس خطے میں چین اور امریکہ کی غیرمعمولی مداخلت کے نتیجے میں پاکستانی اقلیتیں کسی نئے نظریہ ضرورت کا نشانہ بن جائیں یا کوئی کمزور حکومت ان کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت نہ دے پائے مگر ایڈورڈ کرٹس کے لافانی کام کی طرح سید مُحمد رفیق اور اقبال کھتری کی بنائی ہوئی تصاویر پاکستانی ہندو برادری پر کئے گئے پہلے باقاعدہ کام کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان دو حضرات کے کام سے کئی سنجیدہ پاکستانی تخلیق کاروں کو یقیناً یہ آگہی ملے گی کہ اکثریت اور اقلیت کے مابین مثبت رابطوں کا دارومدار منفعت پرست ٹولوں کی بجائے عوام کے اپنے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔