کہانی در کہانی

یہ تحریر 142 مرتبہ دیکھی گئی

:پچیسویں کہانی

اسماعیل میرٹھی کی پن چکی یا اپنے قاضی صاحب:

قاضی محمد منشآ کا نام ذہن میں آتے ہی مجھےاسمعیل میرٹھی کی نظم پن چکی یادآجاتی ہے،سنئے:
نہر پر چل رہی ہے پن چکی
دھن کی پوری ہےکام کی پکی
بیٹھتی تو نہیں کبھی تھک کر
تیرے پہیے کو ہے سدا چکر
پیسنے میں لگی نہیں کچھ دیر
تونےجھٹ پٹ لگادیااک ڈھیر
لوگ لےجائیں گےسمیٹ سمیٹ
تیرا آٹا بھرے گا کتنے پیٹ
بھر کےلاتے ہیں گاڑیوں میں اناج
شہر کے شہر ہیں ترےمحتاج
تو بڑے کام کی ہے اے چکی!
کام کو کر رہی ہے طے چکی
ختم تیرا سفر نہیں ہوتا
نہیں ہوتا مگر نہیں ہوتا
پانی ہر وقت بہتا ہے دھل دھل
جو گھماتا ہے آ کے تیری کل
کیا تجھے چین ہی نہیں آتا
کام جب تک نبڑ نہیں جاتا
مینہ برستا ہو یا چلے آندھی
تو نے چلنے کی شرط ہے باندھی
تو بڑے کام کی ہے اے چکی!
مجھ کو بھاتی ہے تیری لے چکی!

قاضی صاحب کےجاننےوالوں کے لئےقاضی صاحب کی شخصیت جو کچھ بھی ہو مجھےتو وہ من وعن اس چکی کی تعبیرنظر آتے ہیں،آپ اس نظم کو پڑھتےجائیےاورقاضی صاحب کی شخصیت کےپرت کھولتے جائیے چلئےپہلے شعرسے چکی کی خصوصیات شروع کرتے ہیں،دُھن کی پکی،کام کی پوری،کبھی تھک کربیٹھتی نہیں، پہیے ہمشہ چکر میں رہتے ہیں،آندھی بارش راستہ نہیں روک سکتے،پیسنے میں ذرا دیر نہیں لگاتی،بڑے کام کی ہے،اب چکی کی ایک ایک صفت لیجئے اور قاضی صاحب کی صفات پر نظر ڈالتے جائیے،آپ کو سر مُوفرق نظر نہیں آئے گا-اس نظم کا نچوڑ یہ ہے کہ یہ پن چکی کام کی دھنی اور دُھن کی پکی ہےکسی وقفے کے بغیر ہمہ وقت کام اورکام اس کاماٹوہے خدمت خلق اورانسان دوستی اس کانصب العین ہے،یہی سب قاضی منشآ کی شخصیت کی پرتیں ہیں،قاضی صاحب قدیم وضع کے نیک سیرت دیندار،منکسرالمزاج انسان ہیں جوہمہ وقت خلق خداکی خدمت کواپناشعار بنائےہوئےہیں کہ وہ مولاناحالی کے پیرو ہیں-یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدیٰ کا/ کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا –

قاضی صاحب سےمیرا تعارف زیادہ دورکی بات نہیں ہےبلکہ نفس چند کی ہے بات مگر یوں لگتاہے کہ ہم برسوں سےایک دوسرےکوجانتے ہیں،میرےخیال میں اس کی اصل وجہ اُن کابے پایاں خلوص،دوستی میں اُن کاوالہانہ پن اورعجز و انکسار ہے،ایک آوازدیجئےاوروہ حاضر، وہ
یاروں کے یار ہیں،ہمیشہ دوستوں کو آگے آگےکرتے ہیں خود کو پیچھےپھر دوستوں کو دوسرے دوستوں سے ملوا کر بہت خوش ہوتے ہیں، وہ ہر روز صبح سویرےگھرسےنکلتے ہیں کہ بقول غالب ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کرقلم نکلے،بس پھر کیا، سارا دن قاضی صاحب ہیں اورقلم کی مزدوری،بیچ بیچ میں خدمت خلق فی سبیل الللہ کی مصروفیت بھی چلتی رہتی ہے،دوستوں کی تقاریب کی ترتیب و تشکیل اُس کے علاوہ ہے-میں نے اپنی زندگی میں کسب رزق حلال کے ساتھ خدمت خلق کی ایسی مثال کم ہی دیکھی ہے دیر گئے رات جب گھر پہنچتے ہیں تو پھر قاضی صاحب ہوتےہیں اور ان کا رب،دلوں کےبھیدتو الللہ ہی جانتا ہے مگر قرائن بتاتے ہیں کہ وہ عابد شب زندہ دار ہیں، قاضی منشآ نے خدمت خلق کاآغاز تو اوائل عمر ہی سےکر دیاتھامگرباقاعدہ طور پر خدمات کی انجام دہی جسٹس شیخ انوارالحق کی زیرسرپرستی فلاحی ادارے رحمت میموریل ٹرسٹ سے کی ، پھر تو چل سو چل، ملک کا کونسا فلاحی ادارہ ہے جس کے لئے اُنہوں نے شبانہ روز خدمات انجام نہ دی ہوں اور یہ سب کی سب فی سبیل اللہ،رحمان ٹرسٹ ان میں نمایاں ہے-

اب ذرا قاضی صاحب کے ماضی میں جھانکتے ہیں،پنڈا وال بالا کے اسلامیہ ہائی سکول سے میٹرک کرنے کے بعد ۱۹۷۴ع میں اسی سکول میں استاد کے فرائض انجام دئے،اس اعتبار سے ان کی عملی زندگی کاآغاز پیغمبرانہ پیشے سے ہوا جو بڑا با برکت ثابت ہوا اور آگے چل کروہ اوج ثریا کی بلندیوں تک پہنچے،پھرایک سرکاری ملازمت کے بعد بالآخر پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا، قدرت نے ان کےمقدرمیں خلق خداکی خدمت بتوسط صحافت لکھ رکھی تھی چنانچہ “احسان” جیسے باوقار اخبار سےاپنی صحافت کا آغاز کیااور پھر “تعمیر”اورسعادت” جیسے معروف روزناموں میں کام کرتے رہے،اس علاوہ وہ کئی اخباروں کی تجدید و اجراء کے عمل میں شامل رہےاور بیک وقت کئی کئی اخباروں میں کالم بھی لکھتے رہےہیں بلکہ ابھی بھی لکھ رہے ہیں،اس اعتبار سےقاضی منشآ کی کارکردگی اسماعیل میرٹھی کی پن چکی سے بھی بڑھ جاتی ہے،ایک اور اہم بات قاضی صاحب الللہ تعالئ کے اُن منتخب بندوں میں شامل ہیں جن کی شخصیت میں الللہ تعالئ ایک ساتھ کئی اعلئ صفات جمع کر دیتا ہےمدرس،صحافی،مقرر،مبلغ، سماجی خادم، موٹیویشنل سپیکر اور مصنف،ان تمام کےمجموعے کانام محمدمنشآقاضی ہے یعنی اپنے قاضی صاحب-قاضی منشآ تمام تر سنجیدگی کے ساتھ انتہائی بذلہ سنج ہیں مگر صرف اپنےخاص دوستوں کی محفل میں ورنہ رزم حق وباطل میں ہمیشہ فولاد صفت-ایک آخری بات مولانا حالی کےشعر کی تحریف کےساتھ:

بہت جی خوش ہواقاضی سےمل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں