کہانی در کہانی

یہ تحریر 213 مرتبہ دیکھی گئی

بائیسویں کہانی:

نصف صدی کاقصہ-میرے تدریسی سفر کا آغاز :

کہانی کا آغاز میں سوانحی یادداشتوں پرمشتمل اپنی کتاب “لاہور میرے اندر،میرےباہر” کی ان چندآخری سطروں سے کروں گا کہ میں انہیں اپنی زندگی کے سفر کا ملخص تصور کرتا ہوں- “ شایداس ورق پرکچھ سطریں ایسی ہیں جن کو پڑھ زندگانی کی حقیقت کا علم ہوتا ہےاور کوہکن کےتیشے کی کارستانیاں دیکھ کردل کو سکون ملتاہے-پیغمبری پیشہ،بہترین بود وباش،ثمرآور اولاد،کامیاب عائلی زندگی،سراپا محبت شریک حیات، والدین کی خدمت کا امتنان،کیا ہے جو اس درویش کی جھولی میں نہیں ہے،اس سےزیادہ کسی کوزندگی سے اور کیا چاہئے!” میراتدریسی سفرتوتب ہی شروع ہو ہوگیا تھا جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھااور میں نےدسویں جماعت کے طالب علموں کوٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا تھا لیکن باقاعدہ اور رسمی تدریسی سفر کا آغاز۱۹۷۰ میں شاہ حسین کالج لارنس روڈ لاہور سےہوا جب ڈیرھ سو روپے ماہوار تنخواہ پر وہاں بطور لیکچرر میرا تقرر ہوا تھاجب کہ ابھی میراایم اے کانتیجہ بھی نہیں آیا تھااُن دنوں میں “اُردومیں قومی شاعری”کے عنوان سے استادمحترم ڈاکٹرعبادت بریلوی کی رہنمائی میں اپنا مقالہ مکمل کر رہا تھا-میراباقاعدہ تدریسی سفر پورے پچاس سال بعد۲۰۲۰میں اُس وقت اختتام پذیرہواتھاکہ جب کرونا کے ہنگام گجرات یونیورسٹی کے لاہور کیمپس سے بطورڈائرکٹر اپنا تعلق ختم کرکےمیں نے ریٹائرڈزندگی گزارنے کا مصمم ارادہ کرلیاتھا-چلتے ہیں پھر اپنی کہانی کی طرف،شاہ حسین کالج کی کچھ یادیں ایسی ہیں جو میں کبھی بُھلا نہیں سکتا،وہاں کےنابغۂ روزگار اساتذہ ڈاکٹر نذیراحمد،پرنسپل منظور احمد،صوفی غلام مصطفی تبسم، امین مغل،پروفیسرایرک سپرئین جو تمام اپنےاپنےشعبوں سےفراغت کے بعد ایک کہکشاں کی مانند یہاں اکٹھے ہوگئےتھےجونئیراساتذہ میں یونیورسٹی سےنئےنئے نکلےعلم کےرسیا ارشد مبین گل اورظہورالحق شیخ شامل تھے،یوں یہ ادارہ علوم و فنون کی روایت کا ایسا قران السعدین تھا کہ جس نے تعلیم و تعلم کی راہوں کو کہکشاں بنا دیا تھا،ایک ماہ گزرنے کے بعد مجھےایڈمن یونس نے جب تنخواہ کے ڈیڑھ سوروپےدئےتو میں وہ لے کربھاگا بھاگاسیدھا گھرگیا اور اماں کے ہاتھ پر پورے پیسےرکھ کر کہا کہ یہ میری پہلی تنخواہ ہےتومجھے اُن کےروئیں روئیں سے پھوٹتی خوشی اور آنکھوں سےجاری جھڑی دیکھ کرجو خوشی ملی تھی وہ آج تک نہیں بھولی،زندگی بھرالللہ نےبہت سی خوشیوں سے مجھے نوازا ہے مگر یہ خوشی میری زندگی کا حاصل ہے- اس جملۂ معترضہ کے بعد پھر کہانی کی طرف آتےہیں،شاہ حسین کالج کے بعد ایک چھوٹا سا موڑ آیا،وہ یوں کہ سال بھرپہلے میں نے ریڈیو پاکستان میں پروگرام پروڈیوسر کی تقرری کے لئے درخواست بھیجی تھی اور چھ ماہ قبل میراانٹرویو بھی ہو چکا تھا مگردن اتنے ہو گئے تھے کہ اب یہ میرے ذہن سے محو ہو چکا تھا کہ ایک دن کالج سے گھر گیا توایک رجسٹرڈ خط گھرکے پتے پرملاجو ریڈیوپاکستان روالپنڈی میں پروگرام پروڈیوسر کےتقرر کاپروانہ تھا،یہ وفاقی حکومت کی پکی نوکری تھی،چنانچہ دوڑادوڑا گیااورجائیننگ دی،یہاں ابھی میری کل ایک ماہ دس بارہ دن کی نوکری ہوئی تھی کہ میں ریڈیو سےچھٹی لے کر گھر گیا تومجھےمحکمۂ تعلیم پنجاب میں ایڈہاک لیکچررتقرر کاخط کیاملاکہ بحث وتمحیص کا ایک اور دفتر کُھل گیا-والد صاحب نے کہا کہ تایا سے مشورہ لو،میرے تایا ابوالکاظم کا وطیرہ اور قول تھا کہ مشورہ الللہ کی امانت ہوتا ہےتو اگر دشمن کو بھی دو تو صحیح دو،چنانچہ طےپایا کہ ریڈیو چھوڑ کر لیکچرر بنا جائےکہ ایک تو یہ پیغمبرانہ پیشہ ہے دوسرے ریڈیو کی نوکری نان گزیٹڈ گریڈ چودہ کی اور یہ گزیٹڈگریڈسترہ کی ہے،اُلٹےپیر پنڈی لوٹا کہ ابھی ایک اہم مرحلہ ریڈیو سےاستعفیٰ کابھی تھا،معروف شاعر یوسف ظفر اُن دنوں سٹیشن ڈائرکٹرتھےایک انتہائی سادہ صوفی منش انسان جو حضور اکرم اللہ صلی اللہ علیہ و آلۂ وسلم کے عشق کو زندگی کا حاصل سمجھتے تھے،تھوڑےہی عرصے میں میری اُن کےساتھ قربت ہوگئی تھی کہ میں نےاُن کی دیرینہ خواہش پر عید میلاد النبی کی تقریب ریڈیوکےلان سے انتہائی کامیابی سےلائیو نشر کی تھی-میں نے بات کی تو بولے دوڑ جاؤ، پیچھے مُڑکر نہ دیکھنا،یہاں زندگی برباد نہ کرو یہاں تم کو کچھ نہیں ملنا لاؤ اپنا استعفیٰ میں ابھی فارورڈ کر دوں گا،استعفی کےساتھ قانون کے مطابق مجھےایک ماہ کی تنخواہ تین سو پندرہ روپےجمع کرواناتھی جومیرے مخلص سینئرساتھی عبدالقیوم نے ادھار دے دئےپھرمیں نے کئی ماہ بعد اُنہیں بذریعہ منی آرڈرلوٹائے،کیا عمدہ لوگ تھے یہ سب،میراپہلا تقرر گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ میں ہوامیں لاہورسےریل کارات بھر کا سفر کر کے صبح صبح ملتان پہنچا،مظفر گڑھ کے لئےڈیرہ اڈا سےبس پکڑی جس نے کالج کےسامنے اُتارا،اُن دنوں ایک ہی پُل ملتان کومظفرگڑھ سے سےملاتاتھااوراسی سے ریل،بس، اُونٹ گاڑی سب کو گزرنا ہوتا تھا- دو دو گھنٹے پُل بند رہتا تھا چنانچہ میں جب کالج پہنچا تین بجےتھےاورکالج بندہوچکاتھاخوش قسمتی سےگیٹ پر ہیڈ کلرک الللہ بخش مل گئےجوبھلے مانس انسان تھے،مجھے لے کر فورا” صدرشعبۂ اُردو/وائس پرنسپل املاک احمدنیازی کے پاس گئےجن کا گھر گھرکالج کےعین سامنےکھیتوں کے پار تھا،وہ محبت سے پیش آئےکھانا کھلا کر دفتر واپس لائےاورجوائننگ کےکاغذمکمل کروا کرملازم کے ساتھ مجھے اساتذہ کے لوج میں بجھوا دیا، شام میں دوسینئر اساتذہ زین الدین حسین،خان محمددستی ملنےآئےخوب محفل جمی-اگلے دن کالج گیا پرنسپل نصیر احمد انصاری اچھےاوراُصول پسندانسان تھے،بہت اچھی طرح سےملے اور بولےبھائی جان آپ کو بلانے کے لئے میں نےکئی ڈی او لیٹر لکھے ہیں اچھا ہوا آپ آگئے،(بھائی جان اورکلیرکٹ بتلادوں،اُن کاتکیۂ کلام تھا) یہ سرکاری کالج میں میرے پہلے تقرر کی رُودادتھی- کچھ عرصہ بعد کئی ایک اساتذہ کی شادی ہوگئی اورلوج بند ہوا تومیں اُٹھ کر “قنوان ہوٹل”کے ایک کمرےمیں آگیاجومعروف شاعرکشفی ملتانی کے گھراوربشارت کےدفتر کے بالمقابل تھااس ہوٹل میں اُن دنوں قرب و جوار کے شہروں کے مشاہیر ٹھہرا کرتے تھے،یہاں پٹھانا خاں،محسن نقوی،خاور جسکانی جیسے مشاہیر سے میراتعلق قائم ہوا عابدعتیق، رئیس احمر،زین الدین حسین،خان محمد دستی،اعجازرسول چشتی،ظہور شیخ املاک احمد نیازی تو خیر کالج کے رفیق کار تھے،ہر ہفتے ملتان جاناہوتا تھا،چنانچہ “شب روز “ ہوٹل میں پروفیسرعاصی کرنالی،عرش صدیقی ، انواراحمد،رؤوف شیخ جیسے بزرگوں اور دوستوں سےمتعارف ہواملتان میں امروز کا دفتر بھی دانشوروں اور ادیبوں کامرکز تھا، یہاں بھی بہت سے نئے نئےلوگ مل جاتے تھے، مسعود اشعر ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے جو رام پور کے پٹھان لیکن انتہائی نرم خُو،دلکش شخصیت کے مالک اور پکے ترقی پسند تھے-مجھ سے بہت محبت سے پیش آتےتھےاُن کو کئی مرتبہ مظفرگڑھ کالج کی تقاریب میں بھی لےگیا تھا، ایک تقریب میں انتظارحسین کوبھی لاہور سےلایا تھا-مسعود اشعرآخرمیں لاہور آکراشاعتی ادار مشعل بُکس کےساتھ منسلک ہو گئے تھے،میرا اُن کی وفات تک اُن سے تعلق قائم رہا-یہ تھا میرے پیشہ ورانہ تدریسی سفر کا آغازاورپہلی منزل،پھر یہ سلسلہ چلنے لگا اورسفر کٹنے لگاچلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ،آگےکے سفر کا خلاصہ یوں ہےکہ الحمدُ لللہ ملک اور بیرون ملک محکمۂ تعلیم کا کوئی ایساعہدہ رہا نہیں جس پر مجھے کام کرنےکاموقع نہ ملاہواس خلاصے کی تفصیل کیاہے؟ یہ کہانی پھرسہی،حفیظ جالندھری کے اس شعرکواپنی کہانی پرمنطبق کرتے ہوئے اس قصہ کو تمام کرتا ہوں؀تشکیل و تکمیلِ فن میں جو بھی حفیظؔ کا حصہ ہے نصف صدی کا قصہ ہے دوچاربرس کی بات نہیں