آخری شام ہے دسمبر کی،
سُرمئی بےدلی کے پہرے میں
درد کی خشک شاخ سے اُلجھی
سِسکیاں لے رہی ہے بادِشمال
شہر کی کم سواد گلیوں سے
سہم کے بے اماں پڑاو تک
ہرطرف خیمہ زن ہے تنہائی
درد کا لازمان پھیلاؤ،
ریت پر رینگتے ہُوئے سائے
جِس طرح راکھ ڈال جاتا ہے
وقت دوشیزگی کے بالوں میں
کُہر ہی کُہر ہے خیالوں میں