نوجوان پاکستانی عکس کار کی حمایت میں

یہ تحریر 3114 مرتبہ دیکھی گئی

پاکستانی عکس کار مُحمد اسلم گُجر کو دُکھ ہے کہ پاکستانی فوٹوگرافی کے معروف فورم سے اُن کی زیر نظر تصویر کو “سیاسی تصویر” قرار دے کر ہٹا دیا گیا ہے۔ ہمارے عکس کاری فورمز پر ایسی شکایات عام ہیں۔ اس کے پس پردہ فورم یا کلب انتظامیہ کی عدم آگہی کے ساتھ ساتھ انسانیت اور فنون کے ساتھ واضع عدم وابستگی کا اظہار ہے۔ وہ جنون پسندوں کی طرح بضد ہیں کہ ان کے فورمز پر انسانیت کو درپیش مسائل کے لیے کوئی جگہ نہ تھی نہ ہو گی۔ ان کا مدعا ہے کہ پاکستانی عکس کار انسانیت کو بھلا کر دہلی گیٹ اور بادشاہی مسجد پر ڈوبتے چڑھتے سورج یا مُلک کے شمال میں واقع وادیوں کی بہار اور خزاں پر دھیان دیں۔ یہی کچھ سکھانے کے لیے فوٹو والکس ہوتی ہیں اور اسی سوچ کے حامل جج احمقانہ تسلسل کے ساتھ اوسط درجے کی پوسٹ کارڈ تصاویر کو انعامات سے نوازتے رہتے ہیں۔ اسی سبب کوئی ایک پاکستانی فوٹو جرنلسٹ یا سوشل ڈاکومینٹری فوٹوگرافر ان فورمز پر نامی عکس کاروں میں شمار نہیں کیا جاتا۔ ان فورمز پر کسی ایک انسٹرکٹر نے نئے عکس کاروں کو آدمیت کے مسائل کی جانب متوجہ نہیں کیا۔ جبکہ دنیا بھر کے بڑے عکس کار ہر اس چیز کو تصویر کر رہے ہیں جسے سماجی، ثقافتی یا سیاسی سطح پر مِٹایا (ڈیلیٹ کیا) جا رہا ہو۔ یہ سچے عکس کاروں کی پہچان بھی ہے۔

ہمارے عکس کاری فورمز کی بے چارگی کسی حد تک سمجھ آتی ہے۔ میڈیا پر مکمل کنٹرول نہ ہونے پر حواس باختہ سرکار کا عتاب بے بس اداروں پر ٹوٹتا ہے۔ عکس کاری کے لیے پاکستان مییں سرکاری سطح پر قوانین واضع نہیں ہیں، گویا کسی کو بھی حسب ضرورت کسی بھی نوعیت کی خلاف ورزی کا الزام دھر کر گرفت میں لیا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں فورم یا کلب انتظامیہ سرکار کو ناخوش کرنے والے مواد کی اشاعت سے خائف رہتی ہے۔ لیکن “سیاسی تصویر” کی مضحکہ خیز اصطلاح سمجھ سے باہر ہے۔ اصل مُدعا یہ ہو سکتا ہے کہ عکس میں درج نعرہ اور سابق وزیر اعظم کی تصویر موجودہ حکومت کے منشور اور اپوزیشن مُخالف پرچار سے مُتصادم ہے۔ خاص کر جب ریاست خود ستم رسیدہ رعیت کی داد رسی سے مکمل لاپروا دکھائی دے رہی ہو تو ایسی تصاویر اور بھی باموقع اور بامعنی ہو جاتی ہیں۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ حکومت کوئی بھئ ہو، عموماً دیوار پر لکھا کم ہی پڑھتی ہے۔ ویسے دُنیا بھر میں عوامی شکایات اور اسٹیبلشمنٹ مُخالف نعرے دیواروں پر ہی درج ہوتے ہیں۔ مُحمد اسلم گُجر کی تصویر ہٹائے جانے میں کسی کلب ایڈمن کے ذاتی سیاسی تعصبات یا جھُکاؤ کا دخل ہو سکتا ہے۔ لیکن کسی بھی طور ایسی تصاویر کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ہر تصویر اپنے وقت کی عکسی تاریخ ہوتی ہے، ایک دستاویز، سند اور شہادت کا درجہ رکھتی ہے۔ کوئی معاشرہ کسی خاص وقت میں کیا سوچتا ہے، کیسا دِکھتا ہے، اس کا کافی حد تک تعین تصاویر کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ اگر مُلک میں سابق حکمرانوں کے پرستار موجود ہیں تو یہ اس وقت کی ایک سچائی ہی ہے اور دیواروں پر لکھے ایسے نعرے اور تصاویر اس کا ثبوت۔

لیکن اس کا کیا کِیا جائے کہ عوام کی اکثریت “پورے جھوٹ” یا “آدھے سچ” پر زندہ ہے۔ اوپر سے نیچے تک سب ایک دوسرے کو کسی نہ کسی طرح کی “گولی” کرا رہے ہیں۔ حکمران عوام کو اور عوام حکمرانوں کو کھلم کھلا دھوکہ دے رہے ہیں اور سب ایک دوسرے کی نظر میں سچے بھی ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی عکس کاروں کی پوسٹ کارڈ تصاویر بھی اسی قسم کے ادھورے سچ کی غماز ہیں۔ رو بہ زوال معاشرے کی پوری حقیقت دیکھنے اور دکھانےکی تاب ہمارے فورمز میں نہیں۔ لیکن مُحمد اسلم گُجر کو رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں، ہمارے فوٹوگرافی فورمز نے آپ کی تصویر کو ڈیلیٹ نہیں کیا، بلکہ اپنے فورمز سے پاکستان اور پاکستانیوں کے مسائل کو ڈیلیٹ کیا ہوا ہے۔ لیکن یہاں ایسا ہونا اور ہوتے رہنا عام سی بات ہے۔