غزل

یہ تحریر 114 مرتبہ دیکھی گئی

کیا حسن تھا کہ جس کی فضا لے گئی مجھے
کن وادیوں میں شب کی ہوا لے گئی مجھے

آوازیں آس پاس کی اتریں نہ کان میں
آئی تھی دور سے جو صدا لے گئی مجھے

تاریخ کے ورق پہ بس اتنا ہی درج ہے
جانے کوئی پری کہ بلا لے گئی مجھے

کمرے کی کھڑکیوں پہ چمکتی رہی وہ دھوپ
اور اس کے ساۓنیند چرا لے گئی مجھے

ان دیکھے راستوں کی کشش بھی عجیب تھی
یوں جنگلوں میں آتش_ پا لے گئی مجھے

پھر یوں ہوا تھا میری کہانی کا اختتام
اک روز اس جہاں سے قضا لے گئی مجھے