دنیا کے ساتھ ربط میں رہنا محال تھا
میرا نہیں یہ سارا اسی کا کمال تھا
لمحوں کی بھیڑ بھاڑ میں خود سے بچھڑ گئے
ہر لوٹنے کی راہ پہ سوچوں کا جال تھا
جب خامشی کلام پہ مائل ہوئی نہ تھی
شہرِ صدا میں بولنا سننا وبال تھا
کونجوں کی اک قطار سروں سے گذر گئی
بچے کے ذہن میں کوئی چبھتا سوال تھا
بادل گرجتا سن کے زمیں کانپنے لگی
ایسے میں مجھ غریب کا کس کو خیال تھا
ترکِ تعلقات کا دکھ یاد تک نہ تھا
زخموں کے بعد صرف وہاں اندمال تھا
میں قطرہ قطرہ وقت کے تل میں پگھل گیا
کچھ اپنا ہوش تھا نہ کسی کا خیال تھا
یہ جھیل آسمان سے اتری تو برف تھی
سورج کا لمس ذائقے میں لازوال تھا
وہ جس کے احترام میں لب سی لیے تھے کل
آج اس کے روبرو میں سراپا سوال تھا
مجھ پر کسی دعا کا کرم ہے وگرنہ شعر
مجھ جیسے آدمی سے کوئی احتمال تھا