غزل

یہ تحریر 72 مرتبہ دیکھی گئی

کچھ بھی نیا نہیں ہے مگر سب نیا سا ہے
باتیں وہی ہیں لہجہ مگر معجزہ سا ہے

منظر کی مَست لے پہ تھرکتا حسیں گلاب
کچھ جانتا نہیں کہ یہ سب کیا نشہ سا ہے

دیوارو در سے جھڑتی ہوئی ریت میں کہیں
وہ عکس آ پڑا ہے کہ گھر ائنہ سا ہے