کسے خبر کہ بگڑنا ہے یا سنورنا ہے
کٹھن سہی ہمیں اس راہ سے گزرنا ہے
تمھاری یاد کی خوشبو ہے چار سو اپنے
ہمیں تو یوں بھی اسی باغ میں ٹھہرنا ہے
خود اپنے دل کو کریدو یہیں ملے گا وہ
پراۓشہر میں کس کو تلاش کرنا ہے
اسی امید پہ ہم بھی رواں ہیں دنیا بھی
یہ گھاؤ وقت نے آخر کبھی تو بھرنا ہے
گلی گلی میں بپھرتی ہوا کی وحشت سے
گھروں میں جلتے چراغوں نے روز ڈرنا ہے