وہی سیر باغ دنیا وہی تیری خوش لباسی
وہی آگ زندگی کی وہی میری بد حواسی
میں یونہی گلی گلی میں کوئی رنگ ڈھونڈتا تھا
مرے دل میں کیسے اتری کسی شام کی اداسی
ترے در کی رونقوں سے مجھے دور لے گئی ہے
کسی کشف کی گھڑی میں کوئ آئی تھی صدا سی
اسے پھر بلا رہا ہے وہی دور کا اندھیرا
ابھی مجھ میں جاگتا ہے گھنے جنگلوں کا باسی
کبھی صبح کی ہوا کو کبھی شام کی فضا کو
کوئی رنگ دے گئ ہے مرے دل کی دیوداسی