رات سرکس کے تنبو اتارے گئے اور بازی گروں کو ٹرک لے گئے
ایک پہیے کی سائیکل پہ بہروپیے شہر سے زندگی کی رمق لے گئے
ان گنت لالٹینوں کو تھامے ہوۓ گیت گاتے ہوۓ خواب سے قافلے
کون جنگل کے کہرے میں کھوۓ گئے کس طرف اپنے دل کی چمک لے گئے
کیا بتاؤں کہ جدت کے بالشتیےکس تھکاوٹ کو نس نس میں بھرتے رہے
میں کہ سونے کے اوقات گنتا رہا وہ مری زندگی کا نمک لے گئے
بھنبھناتی ہوئی شہد کی مکھیاں کیسی معصوم آنکھوں کا نوحہ بنیں
کتنے سیاح جوڑوں کو رہ آشنا ماس خوروں کی بستی تلک لے گے
کس کو معلوم ہے مستقل چپ میں ڈوبی ہوئی مدرسے کی عمارت کا دکھ
چند بچے کہ سورج نکلنے پہ آۓ اور اگلے دنوں کا سبق لے گئے
ایسے ویراں سٹیشن پہ پٹرول کو کون رکتا بھلا سوچیے تو سہی
ایک پنجر کہ لوہے کی کرسی پہ ہے اور کوے کہ پوشاک تک لے گئے
بالکونی کو مڑتی ہوئی سیڑھیاں سرخ قالین پھٹتا ادھڑتا ہوا
گول میزیں تہی چاندی کے برتنوں سے ملازم طلائی ورق لے گئے
ہاۓ گاؤں کہ شہ راہ سے کٹ گیا خاک اڑتی ہے گلیوں میں بازاروں میں
واۓ ظالم کہ خط کھینچتے کھینچتے اپنے شہروں کی جانب سڑک لے گئے