عکس دوست بالمقابل عکس دشمن ذہنیت

یہ تحریر 2797 مرتبہ دیکھی گئی

ہماری شخصیت کے بارے میں سب سے زود اثر پروپگینڈہ ہماری تصویر ہے۔ لیکن اپنے عکس سے خوف یا گریز بھی انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ یونانی اصطلاح Scopophobia ( (دیکھے جانے کا خوف) اسی ڈر کی عکاسی کرتی ہے۔ اپنی اصلیت سے گریز ہمیں بھلا دیتا ہے کہ اقوام کا حوصلہ فتوحات سے نہیں بلکہ کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ناکامیوں کو قبول کرنے سے متوازن رہتا ہے۔ یوں ہمیں اپنی ہی جھوٹی تاریخ گھڑ کر خود کو بہکائے رکھنے کی ضرورت نہیں رہتی اور نہ ہی ہر دم آشکار ہوتے حقائق کا سامنا کرنے پر خفت اٹھانی پڑتی ہے۔

تصویری پروپیگنڈہ کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ کوئی ریاست اپنی پے در پے حماقتوں کی پردہ پوشی کے لیے طاقت اور ریاستی وسائل کو استعمال کرتے ہوے بصری تاریخ کو مسخ کرنے پر تل جائے۔ عام طور پر تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ انداز حکمرانی عام ہے۔ اکثر اوقات بااثر اقوام کمزور ممالک کے خلاف احمقانہ جارحیت کی پردہ پوشی کے لیے بھی یہی حربہ اختیار کرتی ہیں۔ میڈیا اور امیج کنٹرول کے ذریعے نہ صرف لوگوں کو حقائق سے بے خبر رکھا جاتا ہے بلکہ ہیجان انگیز تصاویر کی بھرمار سے انہیں غیر محسوس انداز میں حقیقت آشنائی سے لاتعلق بھی کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے جیسے ممالک میں سرکاری سطح پر فوٹوگرافک آرکائیوز کی زبوں حالی اس کا واضع ثبوت ہے۔ ذہنیت یہ ہے کہ عکسی گواہی سامنے آنے پر جھوٹی عظمتوں کے مینار زمیں بوس نہ ہو جائیں۔ ایک عرصے تک فرانسیسی جنگی عکس کار Christian Simonpietri کی بنائی ہوئی یا چیکوسلواکیہ کے عکس کار پال پاپر Paul Popper کی تصویری لائبریری میں موجود سقوط ڈھاکہ کی تصاویر کا دکھانا ریاست کی مخالفت سمجھا جاتا رہا اور دوسری جانب حکومتی یا سیاسی مخالفوں کی کردار کشی کے لیے ان کی نازیبا تصاویر تیار کروانے اور ان کی غیر اخلاقی تشہیر کی کھلی چھوٹ رہی۔

برتری اور حاکمیت کی جنگ میں تصویری عکس کلیدی ہتھیار ہے۔ زیرک حکمران اس حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے امیج کو محض بھرپور سیاسی تشہیر کے لیے ہی استعمال نہیں کرتے بلکہ تاریخ کا حصہ بناتے ہیں۔ امریکی نژاد کینیڈین عکس کار یوسف کارش Yousuf Karsh کی بنائی ہوئی ذوالفقار علی بھٹو (1976) اور بینظیر بھٹو (1989) پاکستانی سیاسی تاریخ کے دو اہم پورٹریٹ ہیں۔ یہ تصاویر روایتی اشتہار بازی کے لیے نہیں بلکہ عالمی تاریخ کی دو با اثر شخصیات کے پورٹریٹ کے طور پر بنوائی گئیں۔ کارش حکمرانوں اور فنون لطیفہ سے وابستہ با اثر افراد کی تصویر کشی میں ارفع مقام رکھتے ہیں۔ ان کے فوٹوگرافک آرکائیو کو عالمی تاریخی ورثے کا درجہ حاصل ہے۔ بھٹو خاندان نے روز اول سے ہی اپنی تصویر کشی کے لیے دنیا کے نامی عکس کاروں کا انتخاب کیا ہے۔ ایرانی نژاد فرانسیسی عکس کار رضا دیغاتی Reza Deghati طویل عرصے سے بھٹو خاندان کی تصویر کشی کرتے آ رہے ہیں۔ ان کی نمایاں تصاویر میں 1986 میں بینظیر بھٹو کی جلاوطنی سے واپسی پر لاڑکانہ میں اخبار کی ورق گردانی کرتے ہوے بنائی گئی شہرہ أفاق تصویر، 1987 میں بینظیر کی شادی کے موقع پر ذوالفقار علی بھٹو کی پینٹنگ کے نیچے کرسیوں پر براجمان نصرت بھٹو کے ساتھ یادگار تصویر یا پھر وائڈ اینگل لینز پر ضیا مخالف تحریک کے آغاز میں لوگوں کے بینظیر بھٹو پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہوے شاندار تصویر شامل ہیں۔ بینظیر بھٹو کا ضیأ مخالف تحریک کا عکس ہمیشہ رضا دیغاتی کی پسندیدہ تصاویر میں رہا۔ 2016 میں لاہور لٹریری فیسٹیول میں اس پر بات کرتے ہوے انہوں نے Scott Simon کے ساتھ اپنے انٹرویو کا حوالہ دیا، “بینظیر کی اس تصویر کے لیے میں لگاتار تین مہینے ان کے ساتھ رہا۔ تب لوگ ان کو مارشل لاء سے نجات کی امید کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد میں اس تصویر میں اڑتی گلاب کی پتیوں کو خون کی بوندوں کے نذرانے کے طور پر دیکھتا ہوں جو بینظیر بھٹو اور پاکستانی عوام نے اپنے وطن میں جمہوریت کی بحالی کے لیے پیش کیا۔” بھٹو خاندان کی نئی نسل میں فاطمہ بھٹو اپنی تصاویر پر خصوصی توجہ دیتی ہیں۔ یہاں ان کی 1999 میں پاکستانی عکس کار ٹپو جویری Tapu Javeri کے ہاتھوں 70 کلفٹن، کراچی میں واقع ذوالفقار علی بھٹو کی لائبریری میں بنائی گئی تصویر قابل ذکر ہے۔ پاکستانی سیاست پر بینظیر بھٹو کک بے باک انداز خطابت اور خوش پوشاکی کی چھاپ اس قدر گہری ہے کہ مختلف جماعتوں کی نمائیندہ خواتین (شیری رحمان، فہمیدہ مرزا، مریم نواز، آصفہ بھٹو) اپنی تصاویر میں ان کی بھرپور تقلید کرتی نظر آتی ہیں۔

پاکستان کے فوجی حکمرانوں میں جنرل پرویز مشرف کو تصویر کی طاقت کا مکمل ادراک تھا۔ منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو بے دخل کرتے ہی ملٹری ڈکٹیٹر کے کرخت تاثر کو زائل کرنے کے لیے انہوں نے متعدد مغربی عکس کاروں کا سہارا لیا۔ ان تصاویر کا مقصد ایک فوجی آمر کو نرم دل عوام دوست حکمران کے طور پر قبولیت بخشنا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اس کو مسند اقتدار پر بلا شرکت غیرے جلوہ افروز دکھانا تھا۔

Robert Nickelsberg اور David Leveson

کی تصاویر نے کافی حد تک یہ ہدف حاصل کیا۔ Kate Peters کی ایک تصویر میں جنرل مشرف ہلکے نیلے رنگ کے کوٹ اور چیک دار قمیض میں ملبوس بے تکلف مگر پر اعتماد انداز میں سگار کا کش لگا رہے ہیں۔ اس سے پہلے ضیا دور میں عوام کو ہراسیمگی کی حالت میں رکھنے کے لیے عوامی مقامات پر کوڑے لگانے اور پھانسیوں کی تصاویر کی اشاعت عام (ذوالفقار علی بھٹو کی رہائی کی تحریک میں ممتاز پاکستانی فوٹوجرنلسٹ اظہر جعفری کا بنایا ہوا لاٹھی چارج سے زخمی نصرت بھٹو 1978 کا عکس ریاستی جبر کی نمائندہ تصویر ہے) کے برعکس جنرل پرویز مشرف نے عکسی سنسرشپ پر قدرے نرم رویہ اختیار کیا۔ اگرچہ جبر کی پالیسی بلوچستان کے مقبول لیڈر اکبر بگٹی کے قتل کی صورت جاری رہی مگر ان کی تدفین اور دیگر رسومات کی میڈیا کوریج پر خاص پابندی نہیں لگائی گئی۔ کوئٹہ میں مقیم AFP کے عکس کار بنارس خان نے یکم ستمبر 2007 کو نواب اکبر بگٹی کی پیراملٹری فورسز کی نگرانی میں تدفین کے مناظر عکس بند کیے۔ سولہ دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو ڈیرہ بگٹی پہنچیں۔ بنارس خان کے بنائے عکس میں انہیں طلال بگٹی کے ہمراہ دیوار پر لگی نواب اکبر بگٹی کی تصویر کے نیچے تعزیتی دعا کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

مارچ 2012 میں نیوزویک پاکستان نے Rebirth of Maryam Nawaz Sharif کے عنوان سے مریم نواز کا تفصیلی انٹرویو شائع کیا۔ اس اہم انٹرویو (جو مریم نواز کے سیاسی کرئیر کا آغاز تھا) کے لیے ان کی نہایت متاثر کن تصاویر نوجوان پاکستانی عکس کار مبین انصاری نے بنائیں۔ اس کے بعد اگلے چند برسوں میں مبین انصاری نے عمران خان، شہباز شریف، جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف کے پورٹریٹ بھی بناۓ۔ عمران خان کو 1990 کی دہائی سے ہی صف اول کے پاکستانی سیاسی حریفوں پر عکسی برتری حاصل تھی۔ 1990 میں ان کی کتاب Indus Journey میں عمران خان کا عوامی امیج بنانے کے لیے برطانوی عکس کار Mike Goldwater کو چنا گیا جنہوں نے اپنے کام سے پورا انصاف کرتے ہوے ایک ایک عکس میں عمران خان کو ارض وطن سے محبت رکھنے والے پاکستانی کے طور پر ملک کے دور دراز سیاحتی مقامات پر لے جا کر تصویر کیا۔ لیکن وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوتے ہی عمران خان کی اپوزیشن کش پالیسیوں نے ان کی تصاویر کا طلسم ضائع کر دیا۔ سرکاری آشیرباد میں نیب کے ہاتھوں سیاستدانوں کی پکڑ دھکڑ اور دوران تفتیش غیر اخلاقی عکس بندی کو اپوزیشن کی کردار کشی کے لیے حکومت نواز ٹیلی چینلز اور سوشل میڈیا پر استعمال کرتے کرتے عمران خان اپنے رو بہ زوال میڈیا امیج سے مکمل غافل ہو گئے۔ کسی واضع نظریہ حکومت کا فقدان ان کی تصاویر سے عیاں ہے۔ 2018 سے قبل پی ٹی آئی میڈیا سیل نے جس توجہ اور جوش سے عمران خان کے عکس کا ہوا باندھا تھا آج اس میں وہ دم باقی نہیں رہا۔ حکومت میں ہوتے ہوے بھی ان کی آئے روز جاری کی جانے والی (اکثر فوٹو شاپ شدہ) تصاویر کی حیثیت عامیانہ انتخابی پوسٹرز پر دکھائی جانے والی تصویروں سے زیادہ نہیں رہی۔ میری رائے میں پرویز اے خان کی بنائی ہوئی آفریدی سرداروں کی ضیافت میں شریک عمراں خان کی تصویریں آج بھی عمران خان کی دیگر تصاویر پر حاوی ہیں۔ ان کے مقابلے میں عمران خان کی تازہ تصاویر سے روشن خیال یا پر امید لیڈر کی بجائے متکبر، متذبذب اور غصیلے سیاستدان کا تاثر ٹپکتا ہے۔ حالانکہ وہ مغربی اقدار سے واقفیت کی بنا پر حکمرانی کے لیے عکس کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ خاص کر اس حقیقت سے کہ وائٹ ہاؤس میں امریکی صدور کی پروپگینڈہ تصاویر کی اشاعت پر کس قدر محنت کی جاتی ہے۔

بش خاندان کے فیملی فوٹوگرافر ایرک ڈریپر نے (جنہیں جارج بش جونئیر کے اقتدار میں آنے پر وائٹ ہاؤس کا چیف فوٹوگرافر فائز کیا گیا) 2002 سے 2008 کے درمیان جارج بش کی امریکہ اور ستر سے زائد ممالک میں دس لاکھ تصاویر بنائیں۔ ان میں گیارہ ستمبر کے حملے کے بعد گراؤنڈ زیرو سے میگافون پر امریکہ کے دشمنوں کو للکارتے ہوے بش کی پروپگینڈہ فوٹو بھی شامل ہے۔ یا وائٹ ہاؤس میں بنائی گئی فوٹوگرافر Peter Souza کی صدر اوباما اور سیاہ فام بچے کی بے تکلف تصویر جس میں دنیا کا طاقتور ترین صدر ایک سیاہ فام بچے کے سامنے سر جھکائے کھڑا ہے۔

اور ادھر یہ عالم کہ میڈیا پر اہم سیاسی رول ملنے کی افواہ نشر ہوتے ہی معروف کرکٹر شاہد آفریدی تصاویر میں خیبر پختون خواہ کے غربت زدہ علاقوں میں آٹے کا تھیلا اٹھائے مڑ مڑ کر کیمرے کی طرف دیکھتے ہوے پیدل چلتے نظر آنے لگے۔ لیکن یہ اور اس قسم کی بیشتر تصاویر اپوزیشن کی حالیہ تحریک کے نتیجے میں حکومتی اتحاد کے دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر از خود پس منظر میں چلی گئیں۔ ممکن ہے أئیندہ وقتوں میں نئے نظریہ ضرورت کے تحت ان کی از سر نو تشہیر کی نوبت آ جائے۔

*حوالہ جات کے لیے تصاویر Getty Images, Newsweek Pakistan اور عکس کاروں کے ذاتی آرکائیوز سے لی گئی ہیں۔