سلام

یہ تحریر 110 مرتبہ دیکھی گئی

چمکا نگینِ درد ،بدن پاک ہو گیا
اشکِ عزا ستارہء افلاک ہو گیا

سُنکر وہ استغاثہء دلبندّ ِ مصطفےٰ
قبرِ رسول کانپی ،کفن چاک ہوگیا

بازو کٙٹے، پَہ شیر کی ہمت جُٹی رہی
مشکیزہ چِھد گیا تو جگر چاک ہو گیا

رونق فُزُوں ہے دشت میں خیموں کی کہکشاں
مٙٹّی کو آب و تاب سے ادراک ہوگیا

اک دشتِ کربلا کو معلّیٰ کی ہے سند
باطل کا نام جیسے خس و خاک ہو گیا

بالیدگیء فکر کی تجسیم ہو گئی
کربٙل کُھلی ہے جس پہ وہ بے باک ہو گیا

فرح رضوی کی دیگر تحریریں