روم جل رہا تھا، نیرو بانسری بجا رہا تھا

یہ تحریر 3405 مرتبہ دیکھی گئی

سچ یا جھوٹ؟

64ء کی بات ہے۔ جولائی کا مہینہ۔ گرمی جوبن پر تھی۔ لو چل رہی تھی۔ شہر روم میں، جس کی آبادی دس لاکھ کے آس پاس تھی، لوگوں کا تپش سے براحال تھا۔ گنجان آباد شہروں میں، جب آسمان سے آگ برس رہی ہو، رہنے والوں کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ مگر شہری شہر چھوڑ کر کہاں جاتے۔ ان کا روزگار ہی شہر سے وابستہ تھا۔

امراء کے لیے ممکن تھا کہ گرمیاں گزارنے کے لیے کسی دیہی مقام کا رخ کر لیتے۔ نیرو ٹھیرا شہنشاہ۔ اس کا گرمی سے جی گھبرایا تو روم سے پینتیس میل دور انزیو نامی قصبے چلا گیا جو سمندر کے کنارے واقع تھا۔ پُرفضا مقام تھا۔ ہر طرف سرسبزی۔ موسم گرمیوں میں بھی معتدل۔ اس پر مستزاد، شاہی کارخانہ ساتھ۔ غرض راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔

19 جولائی کو، جب نیرو اور اس کے جگری دوست اور مصاحبین، حسبِ معمول، گرد و پیش سے لطف اندوز ہو رہے تھے، روم سے ایک گھڑسوار قاصد، پسینہ پسینہ، آیا اور کہنے لگا کہ روم میں ایک جگہ آگ لگ گئی ہے۔ نیرو نے خبر سن کر ان سنی کر دی۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ روم میں کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں، آگ لگ جاتی تھی اور شہر کے منتظمین کو آگ پر قابو پانے میں کوئی خاص دشواری نہ ہوتی تھی۔ نیرو کو یقین تھا کہ سرکاری کارکنان جلد ہی آگ بجھا دیں گے۔

صورت حال حقیقت میں بہت گمبھیر تھی۔ روم کو ایک بھیانک آگ نے لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ آگ پہلے سٹیڈیم میں لگی جہاں رتھوں کی دوڑیں اور دوسرے کھیل تماشے ہوتے رہتے تھے۔ آگ کیسے لگی، یہ نہ تو اس وقت کسی کو معلوم تھا نہ اب ہمیں پتا چل سکتا ہے۔ سٹیڈیم کا بیشتر حصہ گھٹیا قسم کی لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ مسلسل شدید گرمی سے وہ بالکل کھڑنک ہو چکا تھا۔ دیکھتے دیکھتے سٹیڈیم کرہ نار بن گیا۔ تیز لو چل رہی تھی۔ اس نے آگ کو اور بھڑکایا اور اردگرد کی دکانیں اور گودام جل کر راکھ ہو گئے۔ ہوا کا زور آگ کو شہر کی طرف لے گیا۔

جیسا کہ بڑے شہروں کا خاصہ ہوتا ہے، روم میں بھی طبقاتی امتیاز بہت نمایاں تھا۔ متوسط طبقے اور غریب غربا کی آبادی بہت تھی۔ معمولی قسم کے مکان آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ گلیاں تنگ تھیں۔ پانی تک رسائی آسان نہ تھی۔ ان غریبانہ محلوں میں آگ نے قیامت مچا دی۔

نصف صدی پہلے شہنشاہ اوگستس نے حکم جاری کیا تھا کہ روم میں کوئی عمارت ستر فٹ سے اونچی نہ ہونی چاہیے۔ اس وقت روم کی آبادی اتنی تھی بھی نہیں۔ لاکھ سوا لاکھ ہوگی۔ جب رومن سلطنت بہت وسیع ہو گئی تو اس پھیلاو نے روم پر بھی اثر ڈالا۔ بڑے شہر مقناطیس ہوتے ہیں۔ دور دور سے، مشرقی بحرِ روم کے علاقوں، مصر، فرانس، ہسپانیہ، جرمنی، افریقہ، ایشیا سے،لوگ روم آ آ کر بستے گئے۔ اوگستس کے فرمان کی کسی کو پروا نہ رہی۔

آبادی دس لاکھ تک پہنچ گئی تو زمین کے مالکوں نے، جن میں بیشتر امیر کبیر یا سینٹ کے رکن تھے، سات سات آٹھ آٹھ منزلوں کی عمارتیں بنانا شروع کر دیں۔ مقصد یہ تھا کہ انھیں کرائے پر چڑھا کر خوب مال بنایا جائے۔ عمارتیں پاس پاس تھیں اور تعمیر کے لحاظ سے خاص گھٹیا۔

ان محلوں تک پہنچ کر آگ نے اور زور پکڑا۔ ایک ایک کرکے عمارتیں دھڑا دھڑ شعلہ پوش ہو کر زمین بوس ہونے لگیں۔ ہزاروں آدمی زندہ جل گئے۔ سیکڑوں بھگدڑ میں کچلے گئے۔ آگ کے بجھنے کے آثار نظر نہ آتے تھے۔

پہلا قاصد جو خبر لایا تھا اس پر نیرو نے دھیان نہ دیا تھا۔ لیکن جب یکے بعد دیگرے دو اور قاصد، گھوڑے دوڑاتے، پریشان حال، وارد ہوئے اور کہنے لگے کہ “حضور، آگ بجھنے کا نام نہیں لے رہی۔ اگر آپ نے توجہ نہ فرمائی تو شہر راکھ کا ڈھیر ہو جائے گا” تو نیرو کو صورتِ حال کی سنگینی کا احساس ہوا۔ وہ اپنے ساتھیوں اور عملے فعلے کے ساتھ روم کی طرف روانہ ہوا۔ رات بھر چلتے رہے۔ صرف تھوڑی دیر کے لیے رکے تاکہ لوگ ذرا سستا لیں اور گھوڑے پانی پی کر تازہ دم ہو جائیں۔

جب وہ روم پہنچے یا جو کچھ روم کے نام پر بچا رہ گیا تھا تو نیرو کے ہوش اڑ گئے۔ ہر طرف گوشت کے جلنے کی چراہند پھیلی ہوئی تھی۔ آگ کی لپٹوں کے اوپر دھواں ہی دھواں تھا جس کی وجہ سے آنکھیں کڑوا چلی تھیں اور سانس لینا مشکل ہو گیا تھا۔ چنگاریاں اڑ اڑ کر لوگوں اور گھوڑوں پر گر رہی تھیں۔ مزید خرابی یہ کہ چور ڈاکو خالی پڑے مکانوں دکانوں کو لوٹنے میں مصروف تھے۔

اس ابتری کو دیکھ کر نیرو نے حکم دیا کہ فی الفور آگ بجھانے کی کوشش کی جائے۔ یہی نہیں، وہ خود بھی مدد کرنے پر کمربستہ ہو کر دوڑ پڑا۔ جہاں بس چلتا، زخمیوں کی مدد کرتا۔ حتٰی کہ ایک مکان میں جا گھسا جو آگ کی زد میں تھا اور مکینوں کو بچا لایا۔ ایک شخص اس کی دوڑ دھوپ سے اتنا متاثر ہوا کہ اسے سونے کے چند سکے انعام میں دینے چاہے۔ اصل میں دھواں لگنے سے اس کا چہرہ کالا پڑ گیا تھا اور پہچانا نہ جاتا تھا۔ نیرو کو بتانا پڑا کہ وہ کون ہے۔

ہر روز وہ تن تنہا تباہ شدہ محلوں کا دورہ کرتا۔ جو لوگ گم شدہ تھے ان کو تلاش کرنے نکل پڑتا۔ برباد ہونے والوں کی دل جوئی کرتا۔ بے گھر ہونے والے افراد کو، شہر کی دوسری طرف واقع، شاہی باغات میں پناہ دی گئی۔ کھانے پینے کا بندوبست کیا گیا۔

نیرو مدت سے روم کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کا خواہاں تھا۔ لیکن سینٹ کے ارکان، جن میں اکثریت ان کی تھی جو غریب محلوں میں اونچی اونچی بلڈنگوں کے مالک تھے اور خوب مال کما رہے تھے، کسی قسم کی تبدیلی کے حق میں نہ تھے۔ انھیں یہ خدشہ بھی تھا کہ نیرو تعمیرِ نو کے بہانے ان سے خاصا مال اینٹھ لے گا۔ آگ نے شہر کے بیشتر حصے کو جلا کر سارا ٹنٹا ہی ختم کر دیا اور نیرو کو شہر ازسرنو تعمیر کرنے کا موقع مل گیا۔

پھر یہ بات کیوں مشہور ہوئی کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو خوشی سے بانسری (اصل میں Lyre) بجانے میں مشغول تھا؟ جن مورخوں کی زبانی اس بات کا چرچا ہوا وہ یا تو چشم دید گواہ نہ تھے یا اس قیامتِ صغریٰ کے وقت بہت کم سن تھے۔ ان کے لکھے پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ نیرو کو گانے بجانے اور اداکاری کا شوق تھا اور آگ پر قابو پانے کی کوششوں سے تھک کر، دل بہلانے کے لیے، ذرا دیر کو لائر بجا لیتا تھا۔ چوں کہ رائے عامہ نیرو کے حق میں نہ تھی اس لیے یار لوگ اس بات کو لے اڑے اور کہنے لگے کہ کیا سنگ دل آدمی ہے۔ خود ہی شہر کو آگ لگائی اور پھر خوشی سے ساز بجاتا رہا۔ سچ ہے “بد اچھا بدنام برا۔”

نیرو کے دوسرے افعال زیادہ گھناونے تھے۔ اب وہ کسی کو یاد نہیں۔ ان پر پردہ پڑ گیا ہے۔ اس نے تخت و تاج اپنے سوتیلے بھائی سے چھینا تھا۔ یہ سوتیلا بھائی پُراسرار طور پر فوت ہوا۔ عام خیال یہی تھا، اور نیرو کی ماں بھی یہی سمجھتی تھی، کہ نیرو نے اسے زہر دے کر مار ڈالا ہے۔ اس سے زیادہ ہول ناک بات یہ تھی کہ اس نے اپنی ماں کو بھی قتل کروا دیا۔ ماں کا کردار خاصا بیہودہ تھا۔ لیکن وہ شاہی خاندان سے تھی اور اپنا رعب جمائے رکھتی تھی۔ جب نیرو تخت نشین ہوا تو ماں نے حکومتی امور میں دخل دینا شروع کیا۔ وہ چاہتی تھی کہ نیرو اس کے کہے پر چلے اور بے رحمی سے حکومت کرے۔ نیرو اس پر راضی نہ ہوا۔ ماں نے اس کے خلاف شازش کی اور اسے قتل کروانے کا منصوبہ بنایا۔ یہ بات چھپی نہ رہی۔ نیرو کے پاس کوئی چارہ نہ رہا۔ اس نے قاتل بھیج کر ماں کو مروا ڈالا۔ یہ الگ کہانی ہے کہ بعد میں شہر کو نذرِ آتش کرنے کا الزام مسیحیوں پر لگا اور تقریباً ایک ہزار مسیحیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ علاوہ ازیں نیرو نے بہت بڑا محل بنایا جس میں تین سو کمرے تھے۔ محل پر بڑی لاگت آئی، خزانہ خالی اورشہر دیوالیا ہو گیا۔