پہلی جنگ عظیم کیسے چھڑی

یہ تحریر 2596 مرتبہ دیکھی گئی

(یہ نوٹس آج سے کم و بیش پچیس سال پہلے کسی کتاب کو دیکھ کر تیار کیے تھے۔ اب حافظے کا یہ عالم ہے کہ کتاب کا نام تک یاد نہیں۔ وضاحت اس لیے ضروری تھی کہ مضمون کو میری تحقیق نہ سمجھ لیا جائے۔ م س)

بیسویں صدی کے شروع میں یورپ میں چھ بڑی عالمی طاقتیں تھیں یعنی روس، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، آسٹریا بشمول ہنگری۔روس کی آبادی سب سے زیادہ تھی۔ مالیاتی وسائل کے لحاظ سے برطانیہ کو اولیت حاصل تھی۔اقتصادی طاقت میں جرمنی پیش پیش تھا۔ 1870ء کی فرانس جرمن جنگ کے بعد ان طاقتوں کے درمیان کوئی معرکہ آرائی نہ ہوئی تھی۔ ان کے مابین ایسے مسائل پر، جن کا یورپ سے کوئی تعلق نہ تھا، تنازعات ہوتے رہتے تھے۔ دھمکیاں بھی دی جاتی تھیں مگر ایسی صورت پیدا نہ ہوئی کہ جنگ ناگزیر ہو جائے۔

نصف صدی سے کچھ کم مدت تک امن قائم رہنا کسی منظم کوشش یا سیاسی سوجھ بوجھ کا نتیجہ نہ تھا۔ان بڑی طاقتوں کے سفیروں اور وزرائے خارجہ میں گاہے گاہے گفت و شنید ہوتی رہتی۔ بادشاہوں اور شہنشاہوں کے اچھے مراسم تھے۔ کبھی کبھار کوئی اہم بین الاقوامی اجلاس بھی ہو جاتا۔ بلقان جنگ کے دوران میں لندن میں بڑی طاقتوں کے سفیر برطانویہ وزیر خارجہ، سر ایڈورڈ گرے، کی چئیرمین شپ میں بڑی باقاعدگی سے ملاقات کرتے۔ اس سرگرمی کا مقصد صرف اتنا تھا کہ کوئی بڑی طاقت برسر پیکار ملکوں کے کرتوت سے خواہ مخواہ جنگ میں نہ کود پڑے۔

یہ خیر سگالی اور مفاہمت محض ظاہری تھی۔ ہر بڑی طاقت کسی نہ کسی حد تک ایک دوسرے سے خائف تھی۔ ایک محاذ مشرق میں تھا جہاں روس ایک طرف اور جرمنی اور آسٹریا کی فرسودہ سلطنت دوسری طرف تھی۔ ایک محاذ مغرب میں تھا جہاں جرمنی اور فرانس بین طور پر ایک دوسرے سے الجھ سکتے تھے۔ برطانیہ اس مخمصے سے الگ تو رہنا چاہتا تھا مگر اسے یہ بھی گوارا نہ تھا کہ کوئی طاقت دوسروں پر غلبہ پا کر یورپ پر چھا جائے۔ ان خدشات کے پیش نظر بعض معاہدے کیے گئے۔ بسمارک نے 1879ء میں آسٹریا سے زمانہٗ امن کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کی شرائط بالکل سادہ تھیں۔ اگر فریقین میں سے کسی پر روس نے حملہ کیا تو دوسرا فریق روس سے لڑے گا۔ کسی اور جنگ میں مثلاً فرانس اور جرمنی کے درمیان جنگ میں، آسٹریا غیر جانب دار رہے گا۔ 1882ء میں بسمارک نے اس معاہدے میں اٹلی کو بھی شامل کر لیا۔ شرط یہ تھی کہ اگر فرانس نے دونوں میں سے کسی پر حملہ کیا تو فرانس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اگر روس سے جنگ ہوئی تو اٹلی غیر جانب دار رہے گا۔ اٹلی کی شمولیت کو کوئی اہمیت نہ دی گئی کیوں کہ اٹلی اور آسٹریا کے تعلقات اچھے نہ تھے۔ اٹلی کے آسٹریا کے بعض علاقوں پر دانت تھے اور آسٹریا کے فوجی جنرل اٹلی سے دو دو ہاتھ کرنے کے آرزومند تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اٹلی ہی ایسا ملک تھا جسے وہ جنگ میں نیچا دکھا سکتے تھے۔

بسمارک کے اتحادِ ثلاثہ کا مقصد یہ تھا کہ بظاہر جارحانہ عزائم رکھنے والی طاقتوں یعنی روس اور فرانس کے خلاف سلامتی فراہم کی جائے۔ ادھر یہ دونوں ملک بھی جرمنی کے جارحانہ عزائم کے بارے میں یکساں طور پر فکرمند تھے۔ آخر انہوں نے بھی 1894ء میں دفاعی نوعیت کا معاہدہ کرلیا۔ اس کی شرائط میں یہ تھا کہ اگر جرمنی نے فرانس پر حملہ کیا تو روس کی کم از کم ایک تہائی فوج جرمنی کے خلاف کارروائی کرے گی۔

ان معاہدوں کے علاوہ بری اور چھوٹی طاقتوں کے مابین بھی بعض معاہدے تھے۔ رومانیہ نے روسی حملے کے پیش نظر جرمنی اور آسٹریا سے اتحاد کر رکھا تھا۔ برطانیہ اور پرتگال، برطانیہ اور جاپان کا معاہدہ تھا۔ علاوہ ازیں بڑی طاقتوں نے تین الگ الگ عہد ناموں کے زریعے سے بیلجیم، سوئٹزرلینڈ اور لکسمبرگ کی آزادی اور غیر جانب داری کے تحفظ کی ضمانت دے رکھی تھی۔

بہر حال، اصل اہمیت روس اور فرانس کے دو طرفہ معاہدے اور جرمنی، آسٹریا اور اٹلی کے سہ طرفہ معاہدے کو حاصل تھی۔ ان معاہدوں کی نوعیت قطعاً دفاعی تھی۔ ان پر عمل درآمد صرف حملہ ہونے کے بعد ہی کیا جا سکتا تھا اور چوں کہ بری طاقت دعوے دار تھی کہ اسے دفاع کے سوا کسی بات سے سروکار نہیں جنگ بظاہر بعید از قیاس نظر آتی تھی۔

بڑی طاقتوں کے پاس آپس میں دست و گریباں ہونے کی کوئی قوی وجوہ بھی موجود نہ تھیں۔ جرمنی یورپ میں مزید علاقے ہتھیانے کا خواہاں نہ تھا۔ فرانس جنگ کی صورت میں الساس اور لورین واپس لینا چاہتا تھا جو 1870ء میں اس سے چھن گئے تھے مگر بیشتر فرانسیسی اس بات پر متفق تھے کہ صرف ان علاقوں کو واپس لینے کے لیے جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔ روس قسطنطنیہ اور درہ دانیال کو کنٹرول کرنا چاہتا تھا مگر صورتِ حال سے مطمئن تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کوئی دوسری طاقت قسطنطنیہ اور درہ دانیال پر قبضہ کرنے کی خواہاں نہ تھی۔ اٹلی اور آسٹریا ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ جمانا چاہتے تھے مگر دونوں میں اتنی سکت نہ تھی کہ بزورِ شمشیر اپنی تمنا کو تکمیل تک پہنچاسکتے۔

اس بات کا امکان ضرور تھا کہ کسی نہایت حقیر سے مسئلے پر، جس کا یورپ سے دور کا تعلق ہو، جنگ چھڑ جائے۔ فرانس اور برطانیہ 1893ء میں سیام اور 1898ء میں بالائی نیل کے معاملے میں ایک دوسرے سے لڑتے لڑتے رہ گئے۔ فرانس اور جرمنی 1905ء اور 1911ء میں مراکش کے سوال پر جنگ کے قریب پہنچ گئے۔روس اور برطانیہ میں بھی مشرق قریب، مشرق بعید، ایران اور افغانستان وجہِ نزاع تھے۔ بلقان کے مسائل پر روس اور آسٹریا میں ان بن رہتی تھی۔ لازمی طور پر ان ناچاقیوں کا نتیجہ معاہدے اور اتحاد تھے۔ لیکن ان پر عمل صرف اسی صورت میں ہونا تھا جب کسی بڑی طاقت پر کوئی دوسری بڑی طاقت چڑھ دوڑتی۔ فروعی جھگڑوں میں یہ معاہدے کچھ زیادہ کار آمد نہ تھے۔ مثلاً مراکشی جھگڑے میں روس نے فرانس کی حمایت نہ کی۔ 1908ء میں بوسنیا کے بحران میں فرانس نے روس کا ساتھ نہ دیا۔ بسمارک 90-1880ء کے دوران میں بلغاریہ کے جھگڑے میں آسٹریا کو سہارا دینے کے قطعاً خلاف تھا۔

ایک ہی معاہدے میں شریک ہونے کے باوجود بڑی طاقتوں کے مفادات میں کوئی ہم آہنگی نہ تھی۔ جرمنی کو بلقان سے کوئی سروکار نہ تھا جب کہ آسٹریا کو اس کے سوا کوئی کام ہی نہ تھا۔ اسی طرح آسٹریاکو اس سے مطلق غرض نہ تھی کہ جرمنی دنیا کی ایک زبردست بحری اور استعماری طاقت بننا چاہتا ہے۔ فرانس اور روس کے مفادات بھی جداگانہ تھے۔

رہا برطانیہ تو وہ زمانہء امن میں پکے قسم کے معاہدے کرنے کا قائل ہی نہ تھا۔ ترکی کا معاملہ ہوا تو روس کا پتا کاٹنے کے لیے آسٹریا اور اٹلی سے یاری گانٹھ لی۔ مصر کے معاملے میں فرانس کو زک پہنچانے کے لیے جرمنی اور اٹلی سے تعاون کیا۔ لیکن بعد میں برطانیہ نے روس اور فرانس دونوں سے entente (غیر رسمی تفہیم) نامی معاہدوں کے ذریعے سے تعلقات بہتر کر لیے۔

یورپ میں تو 1870ء کے بعد کوئی بری جنگ نہیں ہوئی لیکن 05-1904ء میں روس اور جاپان نے زبردست جنگ لڑی۔ اس میں وہ تمام واقعات پیش آئے جنہیں پہلی عالمی جنگ کا خاصہ بننا تھا یعنی خندقی معرکہ آرائی، لاحاصل مقاتلہ، جنرلوں کی نالائقی۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ مشین گنوں کے مقابلے میں گھڑ سوار فوج کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ اس جنگ کا مشاہدہ اور مطالعہ تو برے پیمانے پر کیا گیا پر کسی نے اس سے کوئی سبق نہ سیکھا۔

تمام بڑی طاقتیں اپنی سلامتی اور اقتدار کے لیے اتحادوں پر بھروسا کرتی تھیں مگر بنیادی طور پر ان کا انحصار اپنے کس بل پر تھا۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ خود ہی طاقت ور نہ ہوتیں تو انھیں حلیف بنانا کون پسند کرتا۔ یورپی طاقتوں کی قوت ایک مشترکہ صورت تھی۔ ان سب کے پاس بڑی بڑی افواج تھیں جو زیادہ تر پیدل سپاہیوں پر مشتمل تھیں۔ فوج لازمی فوجی تربیت کے ذریعے سے بنائی جاتی تھی۔ اصولی طور پر ہر نوجوان پر لازم تھا کہ وہ دو یا تین سال تک پوری فوجی تربیت حاصل کرے۔ تربیت مکمل کرنے کے چند سال بعد تک اسے کسی بھی وقت فوجی خدمات کے لیے طلب کیا جا سکتا تھا۔ چند سال گزر جانے کے بعد اسے ریزرو میں رکھا جاتا۔ تمام فوجی ماہروں کی رائے میں ریزرو فوجیوں کو از سر نو تربیت دیے بغیر جنگ میں استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس بارے میں جرمن ماہرین کی رائے مختلف تھی اور جب جنگ شروع ہوئی تو فرانس نے اس مغالطے کی وجہ سے بڑی مار کھائی۔ اصولی طور پر نوجوان کے لیے فوجی تربیت لازمی تھی مگر عملاً ایسا نہیں ہوتا تھا۔ پھر بھی ہر بڑی طاقت کے لیے ممکن تھا کہ جنگ چھڑنے کے بعد چند ہفتوں میں دس بیس لاکھ کی فوج میدان میں لے آئے۔

لاکھوں افراد کے میدانِ جنگ میں پہنچانے کے کام کو لام بندی کا نام دیا گیا تھا۔ لام بندی کا اعلان ہوتے ہی ہر آدمی پر، جس نے تازہ تازہ فوجی تربیت حاصل ہو، لازم تھا کہ اپنی یونٹ میں پہنچ جائے۔ یہ یونٹ بعد ازاں کسی رجمنٹ یا ڈویژن کا حصہ بن جاتی۔ صرف فوجی ہی نہیں، بھاری اور ہلکے توپ خانے اور ان کا گولا بارود اور ہر قسم کا سامانِ رسد اور گھوڑے بھی محاز تک پہنچانے ضروری تھے اور یہ سارا کام ریل کے ذریعے انجام پانا تھا۔ اس مقصد کے لیے جنرل سٹاف سالہا سال سے اپنے اپنے ریلوے ٹائم ٹیبلوں کو کامل بنانے کے لیے کوشاں تھے۔ یہ خیال عام تھا کہ برق رفتاری انتہائی اہم ہے۔ جو طاقت اپنی لام بندی پہلے مکمل کر لے گی پہلے ہلّا بول دے گی اور ہو سکتا ہے کہ حریف کے تیار ہونے سے پہلے ہی جنگ جیت لے۔

ہمہ گیر لام بندی کے ان حیرت انگیز منصوبوں کے بعض پہلو خاصے کڈھب تھے۔ ان پر برسوں سے کام ہو رہا تھا اور مسلسل اصلاح سے وہ جِلا پا چکے تھے مگر عملی طور پر انہیں کبھی آزمایا نہ گیا تھا۔ صرف روس ہی وہ بڑی طاقت تھا جسے جاپان سے جنگ کی وجہ سے فوج کی بڑے پیمانے پر لام بندی کرنی پڑی تھی۔ لیکن اس تجربے سے کچھ سیکھا نہ جا سکا کیوں کہ روسی فوج تھوڑی تھوڑی کر کے سائبیریا کے آخری سرے پر بھیجی گئی تھی اور اسے بیک وقت استعمال کرنے کی نوبت ہی نہ آئی تھی۔ دوسرے ملکوں میں جنگی مشقیں ہوتی رہتی تھیں تاکہ ریلوے ٹائم ٹیبلوں کی عمدگی اور کارکردگی کا اندازہ لگایا جا سکے۔ یہ کسی کو اندازہ نہ تھا کہ جب لام بندی کرنے اور لکھو کھا فوجیوں کو اِدھر سے اُدھر پہنچانے کا مرحلہ آئے گا تو در حقیقت کیا ہو گا۔ ان ٹائم ٹیبلوں میں یہ گنجائش بھی نہیں رکھی گئی تھی کہ اگر ان پر عمل درآمد کے دوران میں دشمن نے کوئی کارروائی کی تو اس کا کیا اثر پڑے گا۔

جنگی مشقیں اصل جنگ کا بدل تو ہو نہیں سکتیں۔ روس کے سوا کسی ملک کے سٹاف افسروں کو عملاً جنگ کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ روسیوں نے بھی جاپان کے خلاف اگر کچھ سیکھا تو بس یہی کہ کسی نہ کسی طرح افواج کو محاز پر مجتمع کر کے جنگ میں جھونک دینا چاہیے۔ اس کے بعد جو خدا کی مرضی! طرفہ تماشا یہ کہ شلئیفن، جس نے فرانس پر جرمن حملے کا منصوبہ تیار کیا تھا، کبھی کسی جنگ میں شریک ہی نہ ہوا تھا۔

سیاسی طور پر لام بندی کے یہ منصوبے خلا میں بنائے گئے تھے۔ ان میں بہترین تکنیکی نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ پروا کسی کو نہ تھی کہ وہ سیاسی حالات کیا ہوں گے جن سے جنگ چھڑ جائے گی یا کسی خاص منصوبے پر عمل درآمد سے کیا سیاسی نتائج مرتب ہوں گے۔ جنگی منصوبہ سازوں اور سویلین سیاست دانوں میں شازونادر صلاح مشورہ ہوتا تھا۔ سیاست دانوں نے یہ کام جنرلوں پر یہ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا کہ وہ اس سے خود ہی خوش اسلوبی سے نمٹ لیں گے۔نتیجہ یہ نکلا کہ جنگ کے سیاسی مقاصد تو غائب ہو گئے اور بس جنگ جیتنے پر توجہ مرکوز ہوئی۔