بارش

یہ تحریر 508 مرتبہ دیکھی گئی

دور تک پھیلے سیم گوں بادل
تند و پیہم برستی بارش کے
گرتے پردے ہوا سے جھولتے ہیں
اور برجوں کے دھندلے رستے
آل طلسمی جہاں کو جاتے ہیں
بھیگتی دم بخود عمارتوں کے
مرتعش سایے تلملاتے ہیں
فاصلے فاصلے پہ دھندلکے
آتے جاتوں پہ مسکراتے ہیں
سائباں کی تلاش میں پنچھی
آشیانوں کو بھول جاتے ہیں
اور زمیں کے بدن سے چمٹے ہوۓ
گھروں کے آسماں ٹپکتے ہیں
پار اندھی سڑک کے ہیّولے
جانے کس کس کی راہ تکتے ہیں
دن کے ڈھلتے ہی، شام ہوتے ہی
دل پہ موسم کئی گزرتے ہیں
اے بس اسٹاپ پر کھڑے سَفَری
لوٹ گھر کو کہ رات ہو چلی ہے