کیمرا ایک ایسی سفاک ایجاد ہے جس نے انسانیت کے ظاہر کو تو آشکار کیا سو کیا، اُس کے باطن کو بھی بے رحم سچائی کے ساتھ فاش کر ڈالا۔ بیسویں صدی میں جنگی محاذوں اور غربت کی آفت میں گِھرے مُلکوں سے آنے والی تصویروں کی بھرمار نے اخلاقی اور سماجی فلسفے کی بُنیادوں کو اُدھیڑ کر رکھ دیا۔ ایسی ہی ایک تصویر 1993 میں جنوبی سوڈان میں ساؤتھ افریقی عکس کار کیون کارٹر (Kevin Carter) نے فاقہ زدہ بچے کی بنائی جس کو ایک گدھ نوچ کھانے کی تاک لگائے بیٹھا ہے۔ اس تصویر کو دیکھ کر افریقہ کو اس حال تک لانے والی اقوام کو تو شرم نہیں آئی مگر کیون کارٹر کی شامت آ گئی۔ اپنے ضمیر کی کالک دُنیا نے اُس کے خون سے دھوئی۔ اُسے بے جا تنقید کا نشانہ بنا کر اخلاقی جُرم کا مُرتکب قرار دیا گیا۔ اسی دباؤ میں کیون کارٹر نے خودکُشی کر لی۔
آج (یکم مئی یومِ مزدور پر) ایسی ہی کاٹ رکھنے والی ایک تصویر نوجوان پاکستانی عکس کار ذیشان علی نے سوشل میڈیا پر دکھائی جو دین و دُنیا میں فلاح پانے کی جستجو میں دھنسے معاشرے کی بے حسی پر چیختا ہوا عکس ہے۔ عکس میں لاہور میں محکمہ صفائی کی طرف سے سڑک کنارے رکھے کوڑے دان سے ایک کچرا چننے والا بچہ کوئی ادھ کھائی چیز نکال کر اپنی بھوک مٹاتا دکھایا گیا ہے۔ انسانیت کو اس سطح پر گِرا کر یومِ مزدور پہ عظمتِ انسان کے جھوٹے پرچارکوں کے مُنھ پر طمانچہ تصویر ہے۔ ذیشان علی کا یہ کام کیون کارٹر کی 1993 میں بنائی گئی تصویر جیسا عظیم ہے۔ کسی بھی زندہ معاشرے کو ہلا کر رکھ دینے والی تصویر۔ کاش لاہور کو پیرس اور اب ریاست مدینہ بنانے کے دعوے دار اس کو دیکھ پائیں اور تعلیم، صحت خوراک، انصاف اور ہر بُنیادی حق سے محروم عوام اپنے اپاہج آقاؤں کے جلسوں میں ناچنے کی بجائے یہ تصویر اُن کو دکھا کر اپنا حق مانگنے کی جُرات پیدا کریں۔ پاکستانی عکس کاری کے فورمز سے عموماً ایڈمن ایسی تصاویر کو اس عُذر سے ہٹا دیا کرتے ہیں کہ یہ مُملکتِ خُداداد کے خلاف منفی پراپیگنڈا ہے۔ ذیشان علی نے Citizen Photojournalist کے طور پہ جعلی مُثبت امیج پیش کرنے والی بے پروا حکومتوں کے ساتھ ساتھ اُن کی ذہنی غلام عوام کو بھی آئینہ دکھایا ہے۔ اگر اس تصویر سے بھی کوئی گراں خواب ضمیر نہ جاگا تو پھر یہاں کے بے خواب کواڑوں کو ہمیشہ کے لیے مُقفل کر دینا ہی بہتر ہو گا۔