دی اسے سن لینجنڈز۔ از فرہاد دفتری
ناشر، آئی بی ٹائورس
ہمارا عہد توڑ پھوڑ اور افشا کا عہد ہے۔ جب بعض چہروں سے نقاب ہٹایا جاتا ہے تو کسی پری پیکر کے بجائے ڈائن نظر آتی ہے اور کبھی کبھار تو پتا چلتا ہے کہ خوش نما نقاب کے پیچھے کچھ بھی نہیں تھا۔ بعض واقعات کو ذرا بے دردی سے ٹٹولا جائے تو انکشاف ہوتا ہے کہ افسانوں کے پہاڑ کے نیچے حقیقت کا ننھا سا بیج دبا ہے۔ اس شکست و ریخت کی زد میں ایسے معاملات بھی آ گئے ہیں جو اساطیری عظمت کے حامل تھے، جن میں افسانے کا سا لطف تھا۔ خرابی یہ ہے کہ عہدِ نو کی تحقیق مسترد تو بہت کچھ کرتی ہے لیکن اپنی طرف سے کسی قسم کی عظمت یا حیرت کا اضافہ نہیں کر سکتی۔ چناں چہ تاریخ کے کتنے ہی گوشے اب ملبے کا ڈھیر نظر آتے ہیں اور بیشتر تاریخی تصانیف بے رونقی کے ایسے مرقع جنھیں پڑھ کر رونا آ جائے۔
سنتے آئے تھے کہ حسن صباح نامی ایک اسماعیلی قائد نے ایران میں کسی بلند و بالا پہاڑ پر قلعہ بند جنت بنائی تھی۔ قلعہ ناقابل تسخیر، اس تک رسائی سخت دشوار۔ اس ارضی جنت میں ہر طرح کا عیش و آرام میسر تھا۔ وہاں حشیش کے رسیا نوجوان فدائی تربیت پاتے تھے اور حکم ملتے ہی جا کر اسماعیلیوں کے بڑے بڑے دشمنوں کو مار ڈالتے تھے۔ خیر سے اس روایت یا داستان پر بھی تحقیق کا ہل چلا دیا گیا ہے۔ نہ جنت بچی، نہ حوریں، نہ عشرت کدے۔
خفیہ تنظیموں کے ذکر اذکار میں بڑی جاذبیت ہوتی ہے۔ ان قاتل فدائیوں کا اسطورہ تھا بھی بہت پرکشش۔ اس میں رومان کی چاشنی بھی تھی، بے محابا رنگ رلیوں کی گنجائش بھی، مہم جوئی کے جوکھم بھی، غرض وہ سارا مال مسالہ موجود تھا جس کی مدد سے راتوں کی نیند حرام کرنے والا فکشن قلم بند کیا جا سکتا ہے۔ مشرق اور مغرب میں کوئی سات سو سال تک اس انوکھی جنت اور اس کے حیرت ناک باسیوں کا طرح طرح سے چرچا رہا اور اب فرہاد دفتری نے آکر ساری بساط ہی لپٹ دی۔ کھیل ختم ہوا۔
فرہاد دفتری معروف اسماعیلی مورخ ہے۔ حسن صباح سے منسوب قصوں میں ایسا کوئی پہلو نہ تھا جس پر اسماعیلی حضرات فخر کر سکتے۔ بھنگ خوری، حوروں سے ہم بستری، قاتلانہ مشن، تعیش اور تشدد کے اس ملغوبے کو اپنے سر کون لینا چاہے گا۔ چنانچہ دفتری نے اس ناپسندیدہ اسطورے کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا تہیہ کیا۔ یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ دفتری کے اکثر دلائل خاصے مستحکم ہیں۔ چلیے، مصنوعی جنت اور حشیش اور حوروں کے جمگھٹوں پر پانی پھر گیا۔ البتہ قاتل فدائیوں کے وجود سے انکار ممکن نہ ہو سکا۔ مشہور تاریخی روایتوں میں افسانے کی لاکھ آمیزش ہو حقیقت کی تلچھٹ بھی ضرور ہوتی ہے۔
ایک بنیادی نکتے کی صراحت یہاں ضروری ہے۔ اس کی اہمہیت بعد میں واضح ہوگی۔ تاریخ عالم میں اسماعیلی صرف ایک بار اپنی سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے یعنی جب فاطمیوں نے 910ء سے 1171ء تک مصر کو مرکز بنا کر ارد گرد کے ممالک پر حکمرانی کی۔ سلطنت میں ضعف کے آثار اس وقت ظاہر ہوئے جب 1094ء میں تخت و تاج کے وارث کے مسئلے پر اسماعیلیوں میں پھوٹ پڑ گئی۔ دو فرقے، نزاری اور مستعلی، سامنے آئے ان میں آپس میں سخت بیر تھا۔ قاتل فدائیوں کا تعلق نزاریوں سے تھا۔
دفتری لکھتا ہے “مسلمان بالعموم اسماعیلیوں کے خلاف تھے اور اہل یورپ کے دہن مشرق کے حوالے سے خیالی اور افسانوی تاثرات سےبھرے ہوئے تھے چنانچہ ان دونوں عوامل کی وجہ سے ازمنہ وسطیٰ میں فدائیوں کے متعلق قصے کہانیاں باقاعدگی اور تواتر سے پروان چڑھتی رہیں۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ سنجیدہ مغربی وقائع نگار بھی یہ سمجھنے لگے کہ ان افسانوں میں ایک معمہ آسا مشرقی فرقے کے مسالک کا کچا چٹھا آ گیا ہے”۔ لیکن دنیا کے سامنے اگر کوئی بگڑی ہوئی تصویر آئی تو اس کے ذمے دار خود اسماعیلی تھے۔ دفتری نے اعتراف کیا ہے “اسماعیلیوں نے اپنے دینی ادب کو چھپایا اور غیروں کو اپنے عقائد سے آگاہ کرنے سے انکار کیا”۔ اخفا کی یہ خواہش غلط فہمیوں کو جنم دینے کا تیر بہدف نسخہ ہے۔
رہ گئی یہ روایت کہ حسن صباح نے مرکزی کوہ البرز میں الموط نامی اونچی چٹان پر جنت بنائی تھی تو یہ محض افسانہ معلوم ہوتی ہے۔ وجہ یہ کہ اس کے حق میں جو چند شواہد موجود ہیں وہ قابل اعتبار نہیں۔ اصل میں حسن صباح اور دوسرے نزاری رہنماوں نے اپنے قلعوں میں بڑے پیمانے پر درخت لگائے تھے اور آبپاشی کے نظام کو ترقی دی تھی۔ سرسبزی میں اضافے سے آب و ہوا کا خوشگوار ہونا لازمی تھا۔ علاوہ ازیں پھلوں اور اناج کی پیداوار سے قلعوں کو خود کفیل بنانا بھی مقصود تھا تاکہ طویل محاصرے کی صورت میں محصورین کو اشیائے خورد و نوش کی تنگی نہ ہو۔ درختوں اور باغوں کی کثرت سے اسماعیلی قلعے جنت کا نمونہ معلوم ہوتے ہوں گے۔ تعجب کیا جو لوگوں نے ان قلعوں کے بارے میں افسانے گھڑ لیے۔
یہ خیال بھی درست نہیں کہ نزاری فدائی بھنگ کے عادی تھے یا نشے کے عالم میں قاتلانہ مہمات پر روانہ ہوتے تھے۔ ایسی مہم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے آدمی کو ذہنی اور جسمانی طور پر پوری طرح چاک و چوبند اور چوکس ہونا چاہیے۔ بعض اوقات فدائیوں کو کئی کئی مہینے تک اس شخصیت کے آس پاس قیام کرنا پڑتا جسے قتل کرنا مقصود ہوتا۔ وار کرنے کا موقع آسانی سے نہ ملتا تھا۔ جو آدمی نشئی ہو وہ ایسی مہم سر انجام نہیں دے سکتا۔
اگر معاملہ یہی ہے تو نزاریوں کو حشیش خور کیوں کہا گیا؟ دفتری اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکا۔ اس نے اس مسئلے کو غیر اہم بنا کر پیش کرنے کی جو کوشش کی وہ بھی متاثر کن نہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ نزاریوں کو حشیش خور سب سے پہلے مستعلیوں نے کہا۔ یہ الزام مستعلیوں کی طر ف سے 1123ء کے لکھے ہوئے ایک مناظرانہ مکتوب میں لگایا گیا تھا۔ گویا یہ الزام انھوں نے دھرا جو نزاریوں کی رگ رگ سے واقف تھے۔ دونوں فرقوں میں شدید اختلاف سہی مگر پھوٹ پڑنے سے پہلے تو وہ ایک تھے۔ مستعلی گھر کے بھیدی ٹھہرے۔ بہت سی راز کی باتیں ان کو پتا ہوں گی۔ درحقیقت نزاریوں کے بارے میں جتنا کچھ انھیں معلوم ہوگا وہ اب کسی طرح ہمارے علم میں نہیں آ سکتا۔ انھوں نے نزاریوں کو حشیش خور بلاوجہ نہیں کہا ہوگا۔
دفتری کے خیال میں یہ دشنام طرازی کے سوا کچھ نہ تھا۔ لیکن یہ مسئلہ اتنی آسانی سے حل ہونے والا نہیں۔ یہ مانا کہ فدائی نشئی نہیں تھے تو پھر نزاری حشیش سے کیا کام لیتے تھے جو مستعلیوں نے انھیں حشیش خور قرار دیا؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ نزاری ائمہ کو امساک کا کوئی نادر نسخہ ہاتھ آ گیا ہو جس کا جزو خاص بھنگ تھا؟ یہ کوئی دور ازکار قیاس آرائی نہیں۔ مشرقی طب کو اول روز سے مردانہ قوت میں اضافے کے نسخوں کی تلاش سے شغف رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ان نوجوان فدائیوں کو، جن سے کسی کو قتل کرانا مقصود ہو، یہ دوا دی جاتی ہو۔ دوا استعمال کرنے کے بعد وہ ہم بستری کے دوران لذت کی انتہا کو چھو لیتے ہوں۔ اس کے بعد ان کا دیوانہ وار اس دوا کا طلب گار بن جانا عجیب نہیں۔ چوں کہ نسخہ صرف اہم ہستیوں کو معلوم تھا اور دوا بھی انھیں کی تحویل میں ہوتی ہوگی اس لیے وہ نوجوانوں سے اپنی ہر بات منوا سکتے ہوں گے۔ وہ شاید کہتے ہوں۔ یہ وہ لذت ہے جو صرف جنتیوں کے حصے میں آتی ہے۔ اگر تم یہ لطف دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو پہلے تمھیں ایک مہم سر انجام دینا ہوگی۔” اتنا لکھنے کے بعد یہ اعتراف بھی ضروری ہے کہ مسئلے کا جو حل اوپر سمجھایا گیا ہے اس کی حیثیت اٹکل سے زیادہ کچھ نہیں۔ حقیقت کیا تھی، اس پر سے پردہ شاید کبھی نہ ہٹ سکے۔