مرنے والوں کے اشارے جو بتا کر گئے تھے لفظ تاریخ کے پہلے ہی صدا ...

جتنا سمٹا اُتنا پھیلا راستہ عنکبوتی جال جیسا راستہ عشق اورمصروفیت میں ٹھن گئی بن ...

بوجھ ایسا ہے کہ شانوں کو جھکا بیٹھے ہیں مجتمع کر کے ترے در پہ ...

ہر قدم سایۂ اشجار تھکا دیتا ہے راستہ جو نہ ہو دشوار تھکا دیتا ہے ...

اشتیاق احمد یوں تو ادبیاتِ اُردو کے استاد ہیں مگر اُن پروفیسروں  میں شامل نہیں ...