بوجھ ایسا ہے کہ شانوں کو جھکا بیٹھے ہیں
مجتمع کر کے ترے در پہ انا، بیٹھے ہیں
ہم نے اک درجۂ حیرت میں تجھے پایا تھا
اور اک درجۂ حیرت میں گنوا بیٹھے ہیں
حاضری قیس قبیلے کی سرِ دشت ہوئی
ہم نے بھی ہاتھ اُٹھا کر کے کہا، بیٹھے ہیں
دو گھڑی رک کے ہمیں پیار سے تک لے صاحب
ہم پرندے تیری دیوار پہ آ بیٹھے ہیں
دل تو قائل ہے فقط ایک خدا کا لیکن
رستۂ زیست پہ جو اتنے خدا بیٹھے ہیں