غزل

یہ تحریر 1402 مرتبہ دیکھی گئی

بوجھ ایسا ہے کہ شانوں کو جھکا بیٹھے ہیں
مجتمع کر کے ترے در پہ انا، بیٹھے ہیں

ہم نے اک درجۂ حیرت میں تجھے پایا تھا
اور اک درجۂ حیرت میں گنوا بیٹھے ہیں

حاضری قیس قبیلے کی سرِ دشت ہوئی
ہم نے بھی ہاتھ اُٹھا کر کے کہا، بیٹھے ہیں

دو گھڑی رک کے ہمیں پیار سے تک لے صاحب
ہم پرندے تیری دیوار پہ آ بیٹھے ہیں

دل تو قائل ہے فقط ایک خدا کا لیکن
رستۂ زیست پہ جو اتنے خدا بیٹھے ہیں