ہر قدم سایۂ اشجار تھکا دیتا ہے
راستہ جو نہ ہو دشوار تھکا دیتا ہے
جس کا جی زخم کے بھر جانے پہ راضی ہی نہ ہو
چارہ سازوں کو وہ بیمار تھکا دیتا ہے
دیکھنے والا نظرباز بلا کا ہو بھی
تیرے رخسار کا تل یار تھکا دیتا ہے
حوصلے اور تحمل سے طلب گاروں کے
منکرِوصل کو انکار تھکا دیتا ہے
بوجھ کم نہ ہو اگر روح کے آزاروں کا
جسم کو جسم کا انبار تھکا دیتا ہے
عشق پا جاتا ہے بند آنکھ سے منزل کا سراغ
عقل کو دیدۂ بیدار تھکا دیتا ہے
صبر کا سنگ عقیل اپنے شکم پر باندھو
جبر کے ہاتھ کو کردار تھکا دیتا ہے