غزل

یہ تحریر 1407 مرتبہ دیکھی گئی

ہر قدم سایۂ اشجار تھکا دیتا ہے
راستہ جو نہ ہو دشوار تھکا دیتا ہے

جس کا جی زخم کے بھر جانے پہ راضی ہی نہ ہو
چارہ سازوں کو وہ بیمار تھکا دیتا ہے

دیکھنے والا نظرباز بلا کا ہو بھی
تیرے رخسار کا تل یار تھکا دیتا ہے

حوصلے اور تحمل سے طلب گاروں کے
منکرِوصل کو انکار تھکا دیتا ہے

بوجھ کم نہ ہو اگر روح کے آزاروں کا
جسم کو جسم کا انبار تھکا دیتا ہے

عشق پا جاتا ہے بند آنکھ سے منزل کا سراغ
عقل کو دیدۂ بیدار تھکا دیتا ہے

صبر کا سنگ عقیل اپنے شکم پر باندھو
جبر کے ہاتھ کو کردار تھکا دیتا ہے