جادوگروں کی دنیا

یہ تحریر 460 مرتبہ دیکھی گئی

ایک یہ دنیا ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔اس کے علاوہ کئی دنیائیں ہیں جن کا مسکن خیال ہے۔اگر کبھی تقابل کو دل مچلے تو ہم اس دنیا کا موازنہ خیال کی دنیا سے کر سکتے ہیں۔یہ وہ علاقہ ہے جس پر خیال کی حکومت ہے۔خیال جس کے اور چھور کا کسی کو اندازہ نہیں۔


ان باتوں کا خیال محمد سلیم الرحمٰن کی نئی کتاب جادوگروں کی دنیا پڑھ کر آیا۔محمد سلیم الرحمٰن جنہوں نے اردو زبان و ادب کی کئی جہتوں میں اجتہادی کام کیا ہے۔ایسا لجپال ادیب جس کے قلم کو ہر آن نئی سوجھتی ہے ۔تراجم،شاعری، افسانہ،تنقید، تدوین، ادارت، ،انگریزی زبان میں ادبی تبصرہ نویسی،بچوں کا ادب غرض جس صنف میں بھی قدم رکھا اس میں اپنے پڑھنے والے کی ہم نوائی کی۔
جادوگروں کی دنیا عجیب و غریب جگہ ہے۔اس میں دو کہانیاں ہیں۔صدیوں کا مسافر اور جادوگر کا محل۔ان کہانیوں کے مصنف کا نام کلارک ایشٹن سمتھ ہے۔یہ لکھاری اپنی ذات میں جادو نگری ہے۔سلیم صاحب کو ایسے لوگ بہت بھاتے ہیں اور وہ ان کی فتوحات سے باخبر رہتے ہیں اور اردو دنیا کو باخبر رکھتے ہیں۔محمد سلیم الرحمٰن نے ان کہانیوں کا مطالعہ کیا اور ان کے حسب حال اردو کے قالب کا انتخاب کیا۔ہم جانتے ہیں کہ ہماری زبان جب کسی ان دیکھی دنیا کی ترجمانی کرتی ہے تو بعض اوقات کچھ کھانچے بیان ہونے سے رہ جاتے ہیں۔کہانی کا پورا طیف سامنے نہیں آتا۔پردہ سا رہ جاتا ہے مگر محمد سلیم الرحمٰن جب کسی متن کی طرف ملتفت ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ کامل ہم گزاری کرتے ہیں۔ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جن دنیاؤں سے ان کا سامنا ہوا ہے اپنے قاری کو بھی ممکن حد تک وہاں پہنچائیں۔دستگیری کا حق بھی یہی ہے۔ذرا دوسری کہانی جادوگر کا محل کا آغاز ملاحظہ فرمائیں:
“یہ تگلاری نامی شکاری اور زکارف نام کی دنیا کی کہانی ہے جہاں دن کے وقت تین سورج اور رات کو چار چاند نظر آتے تھے۔”
آپ سوچتے ہوں گے کہ بھلا ایسی بھی کوئی دنیا ہو سکتی ہے جہاں عناصر اتنے غیر معتدل ہیں۔جی، جان جاں کہانیاں ایک نیا جہان ہوتی ہیں اور یہ اپنی سیاحت کے لئے ان روحوں کا انتخاب کرتی ہیں جن کے دل سوز سے ساز بناتے ہیں۔بھیدی، اکیلے، خوشیوں سے غم اور غموں سے خوشیاں دھونے والے، غواص۔
جہاں تک جادوگروں کی دنیا کا تعلق ہے تو اس اردو روپ کے پس پردہ جتنی کٹھنائیاں تھیں وہ محمد سلیم الرحمٰن نے اپنے قالب پر جھیلیں۔سمتھ پیچیدہ نثار ہے۔پیچ کے بغیر پیچ در پیچ فضا بنی نہیں جا سکتی۔یہاں ایک کہانی میں نوجوان جادوگروں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جسے وہ بے وقوف بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جبکہ
دوسری کہانی میں ایک نوجوان کے سر میں عجیب سودا سماتا ہے کہ وہ طاقتور جادوگر سے ٹکر لے لیتا ہے ۔انجام وہی جو اس نوعیت کے مقابلے کا ہوتا ہے۔بعض صورتوں میں پسپائی بھی دانائی ہوتی ہے۔
ساری صورتحال کا بیان ضروری نہیں۔آپ اندازہ کریں کہ جو مصنف بیسویں صدی کے نصف آخر کے پہلے عشرے کے اختتام پر دنیا میں نہیں رہا اس کی کاغذ پر تراشی ہوئی دنیا کو کتنا دوام حاصل ہے۔کتنا لازوال کام کرتے ہیں کچھ لوگ۔کس لیے ،اس لیے کہ لوگ ان کی دنیا کو دیکھیں اور ان کا دل کچھ وقت کے لیے بہل جاے۔ادب آسرا ہی تو ہے کہ اتنی بے کنار دنیا میں سکھ کے جزیرے بنائے جائیں۔ظاہری طور پر ان جزیروں کا تعلق کسی براعظم سے نہیں کیونکہ جزیروں کی خریداری دنیا داروں کو زیبا ہے۔یہ منطقے خیال کے ہیں۔خیال جو آسودگی اور بے قراری کا مرکزہ ہے۔جادوگروں کی دنیا اس منطقے پر سکھ کا قدم ہے۔ ان قدمچوں پر چل کر ہم ایک دنیا اور ایک زندگی میں کئی دنیائیں اور کئی زندگیاں گزار سکتے ہیں۔آئیں اور ریڈنگز کے اشاعتی ادارے القا پبلیکیشنز کی شائع کی ہوئی جادوگروں کی دنیا سے اپنے خیال کو طرفگی کے ذائقے سے آشنا کریں۔آخر کب تک دن اور رات میں تقسیم، عادات کی ورزش سے وجود کو موت کے ذائقے سے قریب کرتے رہیں گے۔آئیں اور کلارک ایشٹن سمتھ کی دکھائی ہوئی دنیا اور محمد سلیم الرحمٰن کا اردو روپ
دیکھیں آپ خود اس نتیجے پہنچیں گے کہ آدمی تودہ خاک ہوتے ہوئے محشر خیال کیسے بن جاتا ہے ۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/