غزل

یہ تحریر 1572 مرتبہ دیکھی گئی

جتنا سمٹا اُتنا پھیلا راستہ
عنکبوتی جال جیسا راستہ

عشق اورمصروفیت میں ٹھن گئی
بن گیا پھر اک تماشا راستہ

منظرِ تصویر میں اُلجھی نظر
ناؤ ، دریا ، رخ بدلتا راستہ

راستے کی خاک پہلے میں ہوا
پھر بدن سے میرے نکلا راستہ

ہے کسی آسیب منزل کا سفر
برف پاؤں اور سلگتا راستہ

جانے کتنے قافلوں کو کھا گیا
مٹی ہوتا مٹی کرتا راستہ

پاؤں منزل پر ہیں اور یہ دل عقیٓل
کھوجتا ہے پھر نویلا راستہ