انسانی تاریخ ظلم و جبر کی داستانوں سے بھی بھری ہوئی ہے اور ان کے خلاف اٹھنے والی مزاحمتوں سے بھی۔ جب کسی نے “نہیں” کہا، وہ لمحہ انسانی عظمت کا آئینہ دار بن گیا۔ مزاحمت صرف میدان جنگ میں نہیں، افکار، قلم، خطبوں، نظموں، اور حتیٰ کہ خاموشی میں بھی ہوئی۔ایڈورڈ سعید مزاحمت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”مزاحمت ایک ایسا نظری و عملی عمل ہے جو فرد یا جماعت ظلم، جبر، استحصال یا ناانصافی کے خلاف اختیار کرتے ہیں، جس کا مقصد اخلاقی، سیاسی یا فکری سطح پر نظامِ ظلم کو چیلنج کرنا ہوتا ہے۔”
عالمی تناظر میں مزاحمت (Resistance) کی تاریخ انسانی تہذیب کی ایک لازمی، مسلسل اور ہمہ گیر داستان ہے۔ یہ تاریخ انسان کے اس ازلی جذبے کی عکاس ہے جو ظلم، جبر، استحصال، غلامی، آمریت اور ناانصافی کے خلاف کھڑا ہونے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔ ہر قوم، ہر زمانے، اور ہر تہذیب میں ایسے افراد اور تحریکیں جنم لیتی رہی ہیں جنہوں نے باطل کے مقابل “نہیں” کہنا سیکھا، چاہے اس کی قیمت جان، عزت یا آزادی ہی کیوں نہ ہو۔
حضرت موسٰیؑ کی جدوجہد دنیا کی اولین مزاحمتی تحریکوں میں شمار کی جاتی ہے، جس میں ایک نبی نے جبر، غلامی اور فرعونیت کے خلاف مظلوم بنی اسرائیل کے ساتھ مزاحمت کا علم بلند کیا۔
یونانی دیومالا میں “پرومی تھیئس” کی کہانی—جس نے انسانوں کو آگ دی اور زئوس کی آمریت کے خلاف مزاحمت کی—انسانی آزادی کے تصور کو اجاگر کرتی ہے۔
مزاحمت (Resistance) ایک نظریاتی بیانیہ ہے جو ظلم کے خلاف اصولی موقف، اخلاقی استقامت، اور عملی بصیرت کے امتزاج سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر مزاحمت کو سمجھنا ہو تو ہمیں چند اصولوں کو دیکھنا ہوگا جن پر ہر بڑی اور دیرپا مزاحمتی تحریک کھڑی ہوتی ہے:
- حق اور سچ کی بنیاد پر مزاحمت
- اخلاقی برتری اور کردار کی عظمت
- عدم تشدد اور صبر پر مبنی جدوجہد
- قربانی کا جذبہ
- واضح نظریہ اور مقصد
- اجتماعی شعور کی بیداری
- وقت اور حکمت عملی کا شعور
مزاحمت کے جتنے بھی بنیادی اصول اور نکات یہاں بیان کیے گئے ہیں، ان سب کا مکمل اور بلند ترین اظہار واقعۂ کربلا میں امام حسینؑ کی قیادت میں نظر آتا ہے۔ دراصل کربلا کی مزاحمت، تاریخ انسانی میں ظلم کے خلاف ایک مثالی اور ابدی تحریک ہے جس نے مزاحمت کے تمام اصولوں کو نہ صرف پورا کیا بلکہ انہیں نئی روح، نئی معنویت اور نئی بلندی بخشی۔حقیقی مزاحمت انسانیت کا وقار ہے، اور اس کے یہ اصول نہ صرف ظلم کے خلاف کھڑے ہونے والوں کے لیے راہنما ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک فکری سرمایہ بھی ہیں۔ ذیل میں ان نکات کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں کہ آیا کربلا کی مزاحمت ان تمام اصولوں کا عملی نمونہ ہے
1)مزاحمت کی سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ باطل کے خلاف ہو، نہ کہ کسی ذاتی مفاد، گروہی تعصب یا انتشار پر مبنی ہو۔ جب تک مزاحمت کا محرک حق اور سچائی نہیں، وہ مزاحمت کے بجائے فتنہ یا بغاوت کے زمرے میں آتی ہے۔امام حسینؑ کی مزاحمت کی سب سے پہلی اور اہم بنیاد حق ہے۔ انہوں نے صاف لفظوں میں کہا:
“میں اس لیے نکلا ہوں کہ امت میں اصلاح کروں۔”
یہ اعلان ظاہر کرتا ہے کہ ان کا قیام شخصی یا خاندانی مفاد کے لیے نہیں تھا، بلکہ ایک اجتماعی فلاح اور اصولی موقف کے لیے تھا۔ یزید کے ظلم، فسق و فجور، اور جابرانہ نظام کے مقابل امام حسینؑ نے سچائی کا علم بلند کیا۔امام حسینؑ کا یہ قول اس اصول کا نکتۂ عروج ہے:
“میں نے یزید کی بیعت اس لیے نہیں کی کہ وہ ظلم، فسق اور دین کی تباہی کا نمائندہ ہے۔”
2)ہر سچی مزاحمت کا دوسرا ستون اخلاقی برتری ہے۔ مزاحمت کرنے والا محض نعرہ زن نہ ہو، بلکہ اپنے کردار، گفتار، اور عمل سے ظالم کے مقابل ایک بلند اخلاقی مقام پر کھڑا ہو۔ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے والے کو خود عدل و انصاف، رواداری اور سچائی کا عملی نمونہ بننا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ نے ہمیشہ اُنہی مزاحمت کاروں کو یاد رکھا جو کردار کے میدان میں بھی فاتح رہے۔کربلا کے میدان میں امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کا اخلاق و کردار اس حد تک بلند تھا کہ دشمن بھی ان کی عظمت کے قائل تھے۔ دشمن کی فوج کا کمانڈر عمر بن سعد بھی جانتا تھا کہ وہ “حق” کے خلاف لڑ رہا ہے۔امام حسینؑ نے اپنے دشمنوں کو آخری لمحے تک نصیحت کی، حتیٰ کہ حر بن یزید کو توبہ کا موقع دیا۔ یہ سب ان کی اخلاقی بلندی کی گواہی ہے۔
3)ممکنہ حد تک عدم تشدد، مزاحمت کی ایک مہذب اور متمدن صورت ہے، جو اخلاقی سطح پر ظالم کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پرامن مزاحمت نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو برقرار رکھتی ہے بلکہ مظلوم کی اخلاقی قوت کو بھی نمایاں کرتی ہے۔اگرچہ کربلا میں قتال ہوا، لیکن اس سے پہلے امام حسینؑ نے ہر ممکن حد تک پرامن راستہ اختیار کیا۔ وہ جنگ کے خواہش مند نہیں تھے بلکہ ظلم سے انکار کے متمنی تھے۔ مدینہ سے مکہ، پھر کربلا تک ان کا ہر قدم صبر، حلم اور پرامن اصلاح کی طرف تھا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے تمام خطبات میں دعوتِ اصلاح، توبہ اور حق کی طرف رجوع کی بات تھی، نہ کہ خونریزی کی۔
4)مزاحمت کا ایک اور اہم جزو اجتماعی شعور ہے۔ ظلم انفرادی سطح پر توانا نہیں ہو سکتا جب تک وہ اجتماعی ضمیر کو مفلوج نہ کرے۔ اس لیے ہر مزاحمت کو عوامی شرکت، اجتماعی بصیرت، اور شعوری بیداری سے توانائی ملتی ہے۔
اگر مزاحمت معاشرتی شعور کو بیدار نہ کر سکے تو وہ دیرپا اثر نہیں رکھتی۔اگرچہ امام حسینؑ کا ساتھ کم لوگوں نے دیا، لیکن ان کی قربانی نے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔ کوفہ، شام، اور دنیا بھر میں ظلم کے خلاف بیداری آئی۔آج بھی ہر زمانے میں جب کوئی مظلوم، ظالم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو “حسینی مزاحمت” کی گونج سنائی دیتی ہے۔
5)حقیقی مزاحمت ہمیشہ قربانی مانگتی ہے— وقت، آرام، مفادات، حتیٰ کہ جان کی بھی۔ قربانی ہی مزاحمت کو وہ روح عطا کرتی ہے جو اسے تاریخ میں زندہ رکھتی ہے۔ بغیر قربانی کے مزاحمت ایک کمزور احتجاج بن جاتی ہے۔کربلا کی مزاحمت اس اصول کی بلند ترین مثال ہے، جہاں صرف امامؑ نہیں بلکہ ان کا پورا کنبہ قربان ہوا۔امام حسینؑ نے نہ صرف اپنی جان دی، بلکہ اپنے اہلِ بیت، بچوں، بھتیجوں، اصحاب اور حتیٰ کہ چھ ماہ کے بیٹے علی اصغر کو بھی قربان کیا۔یہ قربانی محض جذباتی نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ کربلا کی سرزمین قربانی کی سب سے اعلیٰ تمثیل بن گئ۔
6)کسی بھی مزاحمت کو پائیدار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایک واضح، مربوط اور جامع نظریاتی فریم ورک موجود ہو۔ مزاحمت محض ردِ عمل نہیں بلکہ ایک بامقصد تحریک ہونی چاہیے جو مستقبل کا واضح تصور پیش کر سکے۔ہر حقیقی مزاحمت ایک نئے نظام کی تمہید ہوتی ہے، نہ کہ محض پرانے کے انہدام کی کوشش ۔ امام حسینؑ کی جدوجہد کا ہر قدم، ہر خطبہ، اور ہر عمل ایک واضح نظریہ کا ترجمان تھا: “امر بالمعروف و نہی عن المنکر” یعنی بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ان کا نظریہ واضح تھا:ظلم کو قبول نہ کرنا،فاسق حکمران کی بیعت نہ کرنا اور اسلامی اقدار کا تحفظ کرنا۔
7)مزاحمت صرف جذبے یا غیرت کا اظہار نہیں، بلکہ حکمت، صبر، اور تدبر کا نام ہے۔ ہر مزاحمتی اقدام کا وقت، مقام اور انداز اہم ہوتا ہے۔ جذباتی جلد بازی اکثر مزاحمت کو خود نقصان پہنچاتی ہے۔ امام حسینؑ نے وقت، مقام، اور حکمت عملی کا باریک بینی سے انتخاب کیا: مدینہ چھوڑنا، مکہ میں رکنا، اور بالآخر کربلا کا میدان چننا۔امام حسینؑ نے اپنے قیام کے لیے وہ وقت منتخب کیا جب یزید اپنے اقتدار کو مذہبی تقدس پہنانا چاہتا تھا۔ امام نے اسے چیلنج کر کے بتایا کہ باطل کتنا ہی طاقتور ہو، حق کی ایک کمزور آواز بھی اس کی بنیادیں ہلا سکتی ہے۔
جیسا کہ ہم نے سمجھا : مزاحمت کا تصور محض ایک وقتی ردعمل نہیں، بلکہ ایک اصولی، اخلاقی اور نظریاتی جدوجہد ہے جو ظالم نظام کے خلاف انصاف، آزادی، اور سچائی کی بقا کے لیے کی جاتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں متعدد مزاحمتی تحریکیں ابھریں، لیکن واقعۂ کربلا ایک ایسی ہمہ جہت اور ابدی مزاحمت کا استعارہ بنا، جس نے مزاحمت کو روحانی، اخلاقی اور فکری عظمت بخشی۔ امام حسینؑ نے وقت کے یزید کو کہہ دیا:
(میرے جیسا اُس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔)
کربلا صرف ایک میدانِ جنگ نہیں تھا، یہ مزاحمت کا وہ اعلیٰ مقام ہے جہاں اصول، اخلاق، قربانی، صبر، شعور، اور سچائی مل کر ظلم کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ امام حسینؑ کا قیام ایک وقتی سیاسی ردِعمل نہیں، بلکہ انسانی ضمیر کی جاوداں بیداری تھی—ایک ایسی آواز جو آج بھی ہر مظلوم کے لبوں پر سنائی دیتی ہے۔
ہر وہ شخص جو ظلم کے سامنے ڈٹا، وہ کربلا کے فلسفے سے روشنی لیتا ہے۔ حسینؑ ایک مذہبی یا مخصوص عہد کے کردار نہیں، بلکہ ہر اُس انسان کے نمائندہ ہیں جو حق کے لیے کھڑا ہونا چاہے، چاہے قیمت کچھ بھی ہو۔
غور طلب بات یہ ہے کہ: جب آج بھی ظلم نئی شکلوں میں موجود ہے— جیسے سیاست میں فریب، معیشت میں استحصال، معاشرت میں تعصب، اور اظہار پر پابندیاں—تو کیا آج بھی ہم “حسینی مزاحمت” کو وقت کے یزیدوں کے خلاف ایک اخلاقی، فکری اور نظریاتی قوت کے طور پر بروئے کار لا رہے ہیں ؟









