راگنی کی کھوج میں

یہ تحریر 2796 مرتبہ دیکھی گئی

“راگنی کی کھوج میں” اس وقت چھپ کر بازار میں آئی ہے جو روح پر شر کی فتح کا وقت ہے. مادی ترقی نے روحانی اطمینان پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے. بازار نے تنہائی کو شکست دے دی ہے. سارے فیصلے طاقت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں. اپنا اپنا سچ، اپنا اپنا جھوٹ. اس آپا دھاپی میں وہ لوگ جائیں تو جائیں کہاں جو اپنی زندگیوں کو طاقتور کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہتے. وہ اپنے خوابوں پر کسی طرح کا اجارہ قبول نہیں کر سکتے. ایسے لوگوں کے لیے نجیبہ عارف جیسے لوگ غنیمت ہوتے ہیں جو ان کے اندر راگنی کی کھوج بیدار رکھتے ہیں اور وہ اس شوق کے آسرے پر جینے کا سامان کرتے رہتے ہیں. بے شک شوق ہی ایسا آسرا ہے جو اندھیر دنوں میں باطنی لو کو فروزاں رکھتا ہے. یہ تلاش کسی اور نہیں بلکہ اپنی تلاش ہے جس نے متلاشی کو مسلسل جستجو کی سان پر رکھا.

یہ سفر کہاں سے شروع ہوا اور اس راستے میں کتنے پڑاؤ آئے، اس کا بیان “راگنی کی کھوج میں” کو ایسی دل کشی عطا کرتا ہے جو کبھی کبھی نصیب ہوتی ہے. یہ کھوج ممتاز مفتی سے شروع ہوا. لا حاصلی کا کچھ وظیفہ ان کی معیت میں مکمل ہوا. وہاں سے ان کے ہومیوپیتھی سے دلچسپی کے سبب احمد سعید قاضی سے ملاقات. قاضی صاحب سے مرشد کامل محمد عبیداللہ درانی کی درگاہ سے شناسائی اور پھر وہاں سے سارے جزو مل کر بابا تاج الدین اولیاء ناگپوری سے مس ہوگئے.

یہ تمسک تقدیر تھا یا تدبیر اس کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا. کیونکہ موجود سے متعلق تو کچھ نہ کچھ کہا جاسکتا ہے ناموجود سے متعلق رائے نہیں دی جاسکتی. ایک وسیلہ بچتا ہے انکار. ہم نظر نہ آنے والی چیزوں کو رد کرتے ہیں اور آگے گزر جاتے ہیں. نجیبہ نے اس سفر کو بڑی کیفیتوں کے ساتھ بیان کیا ہے. اس سفر میں خوش نصیبی سے  ایسے کردار میسر آتے گئے جنہوں نے اسے تھکنے نہیں دیا. روح کے سفر پر روانگی سے قبل اسے جو گھر کا ماحول میسر آیا اس میں بھی مرکز مائل قوتیں غالب تھیں.سارے راستے ازلی ابدی سچ کی جانب کھلتے تھے. ان میں نور محمد صل اللہ علیہ وسلم کی روشنی تھی. گریز کم تھا. غیر کم تھا. خدا، انسان ،کائنات میں موجود اسرار جیسے لفظ اس نے اپنے گھر سے سن رکھے تھے. نجیبہ کے والدین روایتی ماں باپ نہیں تھے بلکہ من مانی ترنگ میں زیست کرنے والے تیاگی تھے. خوش نصیبی سے عارف جیسا زندگی کا ساتھی ملا. جو قبول کرنے والی روح ہے. امر کے آگے چپ. ایسے لوگ بشر کا شملہ گرنے نہیں دیتے. چپ چپ رہتے ہیں اور دارِ فانی میں امتحان پر امتحان دیتے چلے جاتے ہیں. تو نجیبہ نے اس سارے منظر میں اپنی زندگی گزاری. خود کو ماننے والوں کی فہرست میں شامل رکھا.

 محمد عبید اللہ درانی سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی. کبھی نہیں ہوئی. مگر اندر کی بوٹی نے ایسا مشک مچایا کہ 280 صفحات پر مشتمل کتاب لکھ دی. اس کتاب میں قاری کے لیے اتنے سائبان ہیں جن کے نیچے وہ دیر تک سستا سکتا ہے. کچھ سفر ہیں. ان اسفار میں نجیبہ کے قلم نے تخیل کی بارگاہ میں سیس نوائی ہے. اس تقدس نے اس کے قلم میں تکریم پیدا کی ہے جس کے سبب ایسی ستھری نثر نے چہرہ دکھایا ہے جس کی خواہش کی جاسکتی ہے. بابا تاج الدین جیسی حال مست ہستی کا فیضان جگہ جگہ جلوہ گر ہے اور محمد عبیداللہ درانی جیسے راضی برضا لوگ جن سے علی گڑھ میں محمد سلیم الرحمن صاحب بھی مل چکے ہیں، کی طلب نے کشش کا کام کیا ہے.

 اس کتاب کو کسی تبصرے کی مدد سے نہیں سمجھا جا سکتا. یہ کتاب کیفیت کا شماریاتی جائزہ ہر گز نہیں. یہ کتاب رضا ہے. اس میں کہیں کہیں اطمینان کے ایسے جزیرے ہیں جن کی تلاش ہر خوش نصیب کو رہتی ہے. اس کتاب میں قبولیت ارتداد پر غالب ہے. من سے من کا ملن ہے.درانی صاحب کا پشاور آنا بھی مصلحت سے خارج نہیں. قادر نگر آباد کرنا. وہاں خلق خدا کی آمد. جنگل میں منگل. نجیبہ کے مشاہدے میں جتنے لوگ بھی آئے یا جن لوگوں کو اس نے اس کتاب میں جگہ دی ہے وہ سارے کے سارے ایسے ہیں جن سے مل کر یا جن کی باتیں سن کر زندگی بوجھ نہیں لگتی. سب اپنے اپنے راستے پر دوسروں کا راستہ بند کیے بغیر رواں ہیں. لکھاری نے ہر عمل کو تہذیب بنا دیا ہے. ذہین طالب علم کیسے ہوتے ہیں. ماں ماپ کی اطاعت کیسے کی جاتی ہے. کسی کے گھر میں کرائے داری کے آداب کیا ہیں. موجود وسائل میں جینے کا سلیقہ کیا ہے. ہومیوپیتھی کی پڑیاں جن کا بنانا ہر ایک کا مقسوم نہیں. درانی صاحب کے خلیفے احمد سعید قاضی صاحب کا خلوص. ایک ایک واقعہ سبھاؤ سے بیان میں آیا ہے. تیزی نہیں دکھائی. صبر کیا ہے اور انتظار کیا ہے. کیفیت میں توازن اسی لئے برقرار رہا ہے.اس کتاب میں بیانیوں کی گھن گرج نہیں. ایک ہی بیانیہ ہے کہ متعین اور محدود وقت کی حامل اس زندگی کو کیسا گزارا جائے. کیسے اپنا آپ، اپنے اپنے شوق کی نذر کیا جائے. ہم اک دوجے کے دکھ کیسے کم کر سکتے ہیں. متوکل ہونا ہے تو توکل والوں سے ملنا ضروری ہے. بابا بندی اور باؤ شریف سے ملنا ضروری ہے. ذہن بناؤ وہ خود تمھیں کسی دن بلا لیں گے. اصل میں تو مرید نہیں جاتا پیر بلاتا ہے. اپنا اپنا تصرف ہے. کبھی کبھی چلتے چلتے راہ میں وہ کچھ مل جاتا ہے جس کی طلب میں لوگوں کی زندگیاں گزر جاتی ہے. بس قطار میں رہنا شرط ہے. قطار باہر کچھ نہیں. پہیے کا پھیر ہے. سارا سنہرا پن اسی میں ہے. یہ کائنات ایک بڑے منصوبے کے زیر اثر رواں ہے. اس انتظام پر کسی کو بھی اعتماد میں لینا ضروری نہیں. ہونی کے اپنے حیلے ہیں. قہر ٹل جاتا ہے اگر صاحبانِ فیض سے مس ہو.مزاج میں ہمہ دانی کم ہو. علم کا غرہ نہ ہو. طبیعت خیر کی جویا ہو. پھر “راگنی کی کھوج میں” گم ہونے کا لطف ہی اور ہے.

اس کتاب کی خواندگی سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ حیرت کی ہے. تعجب اس پہ آتا ہے کہ اس زمانے میں جہاں نفسا نفسی اور قارونیت کا زور ہےدرانی صاحب جیسی منفرد ہستیاں بھی موجود رہی ہیں. یہ کتاب کیا ہے معرفت کے رموز کی جستجو میں سرگرداں لوگوں کے لیے پہلی کا قاعدہ ہے. حرف شناس ہو جائیں گے تو دنیا اور دنیا کے ورقوں پر جو لکھا ہے وہ بھی سمجھ میں آنے لگے گا.خیر کی اس دنیا کو قوسین ، لاہور نے چھاپ کر، زندگی کی تلخی کو  کچھ وقت کے لیے گوارا بنا دیا ہے.

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/