گرل گائیڈنگ کی تنظیم سے میرا تعارف ۱۹۷۶ میں ہوا جب میری عمر بارہ سال تھی اور میں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول خوشاب میں آٹھویں جماعت کی طالب علم تھی۔یہ سکول اپنی ہیڈمسٹریس مس ثریاعنایت کی توجہ، خلوص اور قابلیت کی وجہ سے پورے ضلع سرگودھا میں نمایاں ہو چکا تھا۔ یہاں کی والی بال، ٹیبل ٹینس اور بیڈ منٹن کی ٹیمیں مسلسل ٹرافیاں جیت رہی تھیں اور فی البدیہہ تقریر، بیت بازی، تحت اللفظ شعر خوانی اور ذہنی آزمائش کے مقابلوںمیں اس سکول کی لڑکیاں انعامات سے لدی پھندی آنے لگی تھیں۔ یہ ساری کی ساری ہلچل اور سرگرمی ایک صاحبِ بصیرت اور پر خلوص ہیڈ مسٹریس کی ذات سے پھوٹتی تھی۔ وہ خود بھی بے حد سنجیدہ، متین اور برد بار شخصیت کی مالک تھیں اور اپنے ماتحت اساتذہ کو بھی حسن عمل اور احساسِ ذمہ داری سکھانے کا بیڑا اٹھا رکھا تھا۔ ان اساتذہ کو انھوں نے اس طرح طالبات کی تربیت سونپ دی تھی کہ والدین کی ذمہ داری بھی اساتذہ ہی نے اٹھا لی تھی۔یہ سکول اور یہاں گزارے پانچ سال میری زندگی کا عجیب و غریب تجربہ ہیں۔ عجیب و غریب اس لیے کہ مجھے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوے پینتیس برس ہونے کو ہیں۔اس دوران مسلسل یہ احساس رہا کہ وسائل کی کمی کے باوجود استاد اگر چاہے تو اپنے طالب علموں کی تربیت کر سکتا ہے اور انھیں زندگی آشنا ہونے کے مواقع فراہم کر سکتا ہے لیکن اس کا چلن وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جا رہا ہے۔اس سکول کے تجربات ایک علیحدہ مضمون کے متقاضی ہیں۔ فی الحال صرف ایک تجربے کا ذکر کرنا چاہتی ہوں اور وہ ہے گرل گائیڈنگ سے شناسائی کا تجربہ۔
گرل گائیڈنگ سے زبانی کلامی واقفیت تو مجھے اپنی امی کی بدولت پہلے ہی تھی جو اپنے زمانۂ طالب علمی میں اس تنظیم سے وابستہ رہی تھیں اور اس دوران میں سیکھی ہوئی مہارتیں ہمیں اکثر سکھایا کرتی تھیں۔ مثلاً رسی کو کئی طرح کی گرہ لگانا، زخمیوں کی مرہم پٹی کرنااور ابتدائی طبی امداد دینا ، کپڑوں کی استری اور صفائی ستھرائی کاخاص خیال رکھنا، بالوں کو سلجھانا تاکہ وہ بے ترتیب ہو کر چہرے پر نہ پڑے رہیں، ایک دوسرے کی مدد کرنا اور گائیڈنگ میں مقبول رہنے والے بچوں كے گیت گانا۔ان گیتوں میں سے امی کا پسندیدہ گیت تھا:
Row, row, row your boat
Gently down the stream
Merrily, merrily, merrily, merrily
Life is but a dream.
یہ باتیں سن سن کر گائیڈنگ کا ایک خواب آور تصور تو میرے ذہن میں پہلے سے موجود تھا مگر اس تصور کو جیتے جاگتے تجربہ کرنے کا موقع تب ملا جب ہم آٹھویں جماعت میں پہنچے اور ہمیں گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں۔ ایک دن امی نے بتایا کہ سکول سے دو طالبات کو گرل گائیڈ کیمپ بروری چونگی مری جانا ہے جہاں وہ دو ہفتے کیمپ میں قیام کریں گی اور مختلف مہارتیں سیکھیں گی اور اس مقصد کے لیے میرا اور میری ہم جماعت نصرت کا انتخاب ہوا ہے۔نصرتہوسٹل میں رہتی تھی اور والی بال کی بہت عمدہ کھلاڑی تھی ۔ جب کھیلتی تھی تو اس طرح جی جان سے کھیلتی کہ بال کے سوا اسے نہ کچھ دکھائی دیتا،نہ سنائی۔ توجہ کی شدت سے چہرہ سرخ ہو جاتا اور ایسی ہٹ لگاتی کہ مخالف ٹیم سے بال اٹھانا دشوار ہو جاتا۔ یہ خبر سن کر مجھ پر تو ایسی خوشی اور بے چینی طاری ہو گئی کہ مقررہ تاریخ کا انتظار مشکل ہو گیا۔ خیر گھر میں زور و شور سے تیاریاں شروع ہو گئیں۔ سفید اور سبز یونی فارم سلوائے گئے، ضرورت کا سامان خریدا گیا، بستر بند میں بستر لپیٹ دیا گیا اور ایک ٹین کے بکس میں تمام مطلوبہ سامان پیک کر دیا گیا۔
مقررہ تاریخ کو میں اور نصرت ریلوے اسٹیشن سرگودھا کی طرف روانہ ہوئے جہاں سے ہمیں راولپنڈی کی ریل گاڑی پکڑنا تھی۔ امی ہمارے ساتھ تھیں لہٰذا سرگودھا تک تو سفر ہنسی خوشی گزر گیا۔اسٹیشن پر ہماری ملاقات جہاں اس سفر میں اپنی رہنما اور گائیڈٹرینر سے ہوئی وہاںگرلز ہائی سکول جوہر آبادکی ہیڈ مسٹریس مسز خان اور ان کی پیاری سی بیٹی فرزانہ عرف ڈولی سے بھی ملاقات ہوئی جو اپنے سکول کی نمائندگی کرنے ہمارے ساتھ مری کیمپ جا رہی تھی۔ ہم تینوں ،نئی نئی بننے والی جونئیر گائیڈز ،کومیڈم ٹرینر کے حوالے کیا گیا اور ہم تیسرے درجے کے ڈبے میں سوار ہو گئے۔امی نے کھڑکی سے ہاتھ ہلا کر الوداع کہا اور ریل گاڑیسیٹی بجاتی ہوئی آہستہ آہستہ رینگنے لگی۔
یہاں تک تو سب کچھ بہت عمدہ تھا مگر اب جوگاڑی تیز ہوئی تو میرا دل بیٹھنے لگا۔ریل کی سیٹی سے وابستہ اداسی اور ایک نئی دنیا میں جانے کا خوف بیک وقت میرے دل پر حملہ آور ہوئے اور میرے حلق میں آنسوؤں کے گولے سے پھنسنے لگے۔ مجھے دوسروں کے سامنے رونا بہت مشکل لگتا ہے اس لیے اندر ہی اندر کچھ دیر گریہ زاری کرنے کے بعد بالآخر کھڑکی سے باہر کے نظاروں میں محو ہو گئی۔ یہ پہلاموقع تھا کہ میں اپنے گھر والوں کے بغیر کہیں دور جا رہی تھی مگر نئی جگہ دیکھنے کا شوق، اور جگہ بھی مری جیسی، جہاں کے پہاڑوں اور جنگلوں کے بارے میں اتنا کچھ سن رکھا تھا، میرے جذبات کو مہمیز کرنے کے لیے کافی تھا۔
مری بروری کیمپ میں گزرے ہوئے وہ دن میری زندگی کے یادگار دنوں میں سے ہیں۔ان دنوں ہم نے اردو، انگریزی، سندھی اور پشتو سمیت مختلف زبانوں کے گیت یاد کیے، اپنی اپنی باری پر برتن دھوئے اور کھانا تقسیم کیا، اپنے بستر بنائے، رہائش گاہیں صاف کیں، گیجٹ بنائے، جنگل سے لکڑیاں چنیں، ملک بھر سے آئی ہوئی اپنی ہم عمر یا کچھ بڑی لڑکیوں کے ساتھ رہنے سہنے اور پہننے اوڑھنے کے نئے رنگ ڈھنگ سیکھے، تقریریں کیں، شعر سنائے، تصویریں کھینچیں اور خود کو کارآمد فرد بنانے کے گر سیکھے۔ان دو ہفتوں نے مجھے ہمیشہ کے لیے گائیڈ بنا دیا تھا۔ اسی لیے جب محترمہ نصرت بھٹو سرگودھا کے دورے پر آئیں تو میں نے بھی گائیڈنگ کایونی فارم پہن کر کمیٹی باغ کے ایک داخلی دروازے پر پہرہ دیا تھا۔
یہ سب باتیں محترمہ نعیم فاطمہ علوی کی کتاب ’پاکستان گرل کائیڈز۔شخصیات کے آئینے میں‘ہاتھ میں آتے ہی میرے دل و دماغ میں بے اختیارامڈ آئی ہیں۔ نعیم فاطمہ علوی اگر گائیڈنگ کی تنظیم سے رسمی یا غیر رسمی طور پر وابستہ نہ بھی ہوتیں تو بھی فطری اور روحانی طور پر وہ ایک سچی گائیڈ ہیں۔ ہمدرد، خوش اخلاق، ملنسار، حق گو اور خدمت خلق کی شائق۔ ان کی یہ کتاب بھی اسی جذبے کے تحت لکھی گئی ہے جس میں نہ صرف گائیڈنگ کا تعارف ملتا ہے بلکہ یہ ان خواتین کا تذکرہ بھی ہے جنھوں نے اس تنظیم سے وابستہ رہ کر خاموشی سے اپنی زندگیاں اس کے عظیم مقاصد کے لیے وقف کر دیں۔
تذکرہ نویسی ہماری علمی و ادبی تاریخ کی ایک شان دار روایت ہے جو ہمارے کئی جدید علوم و نظریات کی بنیاد بنی ہے۔یہ ایک مشکل کام ہے کیوں کہ کسی شخصیت کی زندگی کے احوال، بنیادی معلومات کی فراہمی اور ان كی تصدیق آسان نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ نعیم فاطمہ علوی کو یہ پہاڑ جیسا کام مکمل کرنے میں کئی برس لگ گئے۔
انھوں نے ایک دو نہیں، پچاس خواتین کا تذکرہ مرتب کیا ہے ۔ یہ وہ خواتین ہیں جن کی زندگیاں گائیڈنگ کے مقاصد کے لیے وقف ہو کر رہ گئی تھیں اور انھوں نے اپنے وقت، روپے پیسے اور ذہنی و قلبی توانائیوں کا عطیہ دے کر نہ صرف گائیڈنگ کی تنظیم کو تقویت بخشی بلکہ قوم کی بچیوں کی ایسی تربیت کرنے میں کردار ادا کیا، جو انھیں معاشرے کا فعال، مفید اور باشعور رکن بنا سکے۔ اس تربیت کی بدولت کتنی ہی بچیوں کی زندگیوں کو ایک مقصد مل گیا اور وہ ایک بامعنی اور کارآمد زندگی گزارنے کے قابل ہو گئیں۔
نعیم فاطمہ علوی نے جن خواتین كا ذكر كیاہے ان میں سے بیشتر اہلِ ثروت طبقے سے تعلق ركھتی ہیں جن كے بارے میں عمومی خیال یہ ہوتا ہے كہ انھیں پہننے اوڑھنے اور نمود و نمائش كے سوا كسی شے سے سروكار نہیں۔ مگر یہ خواتین اپنے طبقے كے لیے ایك مثال بن گئیں۔ انھوں نے اپنی ذاتی محنت کے ساتھ ساتھ اپنی دولت کو بھی خدمتِ خلق کے لیے وقف کر دیا اور پاکستان کے ابتدائی ادوار میں کئی نسلوں کی خواتین کی کردار سازی کی۔ان میں سے کئی قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں کے خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور انھوں نے فاطمہ جناح کے ساتھ مل کر اس تنظیم کو تاب و توانائی بخشی۔ بعد میں متوسط طبقے کی خواتین بھی اس تنظیم کا حصہ بنتی گئیں اور اسی جذبے اور خلوص سے اس روشنی کو آگے بڑھاتی رہیں۔یہی وجہ ہے کہ اگر اس کتاب کا آغاز مسز خدیجہ جی اے خان کے ذکر سے ہوتا ہے؛ جن کے دادا فرید کوٹ کی ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے اور جن کی شان دار رہائش گاہ کی عظمت و آثار نے مصنفہ کے دل پر ہیبت طاری کر دی تھی؛ تو اس کا اختتام نسیم اختر کے ذکر پر ہوتا ہے۔ نسیم اختر کے والد پوسٹ مین تھے، والدہ ذہنی مریض تھیں اوران کے کنبے میں بہن بھائیوں کے علاوہ کچھ رشتے دار بھی شامل تھے۔ نسیم اختر بڑی بہن تھیں اور ذمہ داری بھی ان ہی کے کاندھے پر زیادہ تھی مگران کے اندر خود اعتمادی نام کی کوئی شے نہ تھی۔ گائیڈنگ نے ان کے اندر حوصلہ، اعتماد اور عزم و ہمت بھر کے انھیں معاشرے ہی کانہیں، گائیڈ ہاؤس کا بھی اہم ، متحرک اور مفید فرد بنا دیا۔ وہ اب تک گائیڈ ہاؤس میں خوش دلی سے خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔اسی طرح مسز خالدہ باری، بیگم مہر انگیز شیرازی، مسز خالدہ معود، مسز معینہ ہدایت اللہ ایسی شخصیات ہیں جن کے تذکرے دلوں کو گرما دیتے ہیں۔
ان سب خواتین کا کردار، ان کا طرزِ فکر و عمل، ان کی مثبت سوچ اور رویے، ان کی بے غرضی اور اخلاص ایسے نایاب منظر پیش کرتے ہیں جن سے ہمارا عہد تقریباً محروم ہو کر رہ گیا ہے۔نعیم فاطمہ علوی نے اس کتاب کے ذریعے معاشرے کو ایک بار پھر جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے ۔ بالخصوص خواتین کے لیے یہ کتاب اچھی خاصی فکری خوراک مہیا کرتی ہے۔ یہ تذکرے بتاتے ہیں کہ انسان اگر اپنی ذات سے بالاتر ہو کر معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہے تو دنیا کی کوئی شے اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ کتاب ایک بار پھر گرل گائیڈنگ کی روح کو زندہ کرنے کا محرک بن سکتی ہے۔ آج ہمیں اس روح کو بیدار کرنے اور اس جذے کو نئے سرے سے زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان اگر گرل گائیڈ اور بوائے سکاؤٹ جیسی مفید تنطیموں کو از سر نو اپنے تعلیمی اداروں میں عام کرے اور انھیں تعلیمی عمل کا لازمی حصہ بنا لے تو ہمارے نصاب میں موجود اس خلا کی شکایت بھی دور ہوجائے گی جس کے نتیجے میں یہ نظام نئی نسل کو کتابی تعلیم تو دیتا ہے مگر عملی زندگی سے نبرد آزما ہونا نہیں سکھاتا۔ یہ دونوں تنظیمیں بین الاقوامی اہمیت کی حامل ہیں اور ان کی مدد سے پاکستان کے مختلف علاقوں کی نئی نسل کے درمیان ہی نہیں بلکہ دیگر اقوام کے ساتھ بھی ہم آہنگی اور دوستی کے جذبات پیدا کیے جا سکتے ہیں۔
میں ان تمام خواتین کو تہِ دل سے خراج تحسین پیش کرتی ہوں جن کی خاموش مگر نتیجہ خیز مساعی اور دن رات کی لگن نے اس تنظیم کو زندہ رکھا ۔ جب بھی ملک پر مصیبت کی کوئی گھڑی آئی،اپنی تربیت یافتہ گائیڈز کے ہمراہ رضاکارانہ طور پر آفتوں کا مقابلہ کیا اور قوم کے زخموں پر مرہم رکھا۔ اس خراج تحسین کی حق دار نعیم فاطمہ علوی بھی ہیں جن کی اپنی شخصیت گائیڈنگ کی روح کو مجسم کر کے دکھا دیتی ہے۔انھوں نے اس کتاب کی تصنیف کے لیے تحقیق کا حق ادا کر دیا۔ اپنے خرچ پر کراچی تک گئیں اور سینئر خواتین سے مل کر، ان کے انٹرویو کیے اور ان کے بارے میں معلومات جمع کیں۔ جو دنیا سے رخصت ہو چکی تھیں، ان کے گھر والوں سے ملاقاتیں کی، انٹرویو کیے اور پھر ان کے بارے میں مصدقہ معلومات اس کتاب میں شامل کیں۔اتنی محنت تو آج کل پی ایچ ڈی کے محقق بھی نہیں کرتے۔ اس پر مستزاد ان کا سادہ، سہل اور رواں اسلوب ہے جس میں شگفتگی بھی ہے اور ادبیت کی چاشنی بھی۔ دعا ہے کہ ان کی یہ مخلصانہ کوشش بارآور ثابت ہو اور ہماری قوم ایک پھر ان تنظیموں کے ذریعے اپنے کھوئے ہوئے اخلاق کو زندہ کر سکے۔نیشنل بک فاؤنڈیشن کا بھی شکریہ واجب ہے کہ اتنی مفید کتاب شائع کر کے صدقۂ جاریہ کا اہتمام کیا۔
کتاب: پاکستان گرل گائیڈز۔ شخصیات کے آئینے میں
مصنفہ: نعیم فاطمہ علوی
ناشر: نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد
سنہ اشاعت : ۲۰۲۳
صفحات: ۱۵۶
قیمت: ۵۹۰ روپے