نظم

یہ تحریر 121 مرتبہ دیکھی گئی

کمی ہے مجھ میں بہت قوت
ارادی کی
کمی ہے مجھ میں بہت قوت ارادی کی
یہ بات کس نے کہی کب کہی نہیں معلوم
نہ جانے کب سے یہ احساس دل دکھاتا ہے
نہ جانے کب سے یہ احساس جگمگاتا ہے
یہ مجھ میں کون چھپا ہے جو میرا ہو نہ سکا
جسے میں غیر سمجھتا ہوں میری ذات نہ ہو
جسے میں اپنا سمجھتا ہوں میرا غیر نہ ہو
یہ ہونے اور نہ ہونے کا سلسلہ کیا ہے
یہ مجھ میں کون چھپا ہے کہ جس کے ہونے سے
قرار دل کو ہے حاصل نہ بے قراری ہے
مگر یہ جنگ مسلسل ہے اور جاری ہے
دھواں سا اٹھتا ہے لیکن کہیں دھواں تو نہیں
سنا تو تھا کہ دھواں لوٹ کر نہیں آتا
یہ کیسی شے ہے جو پھرتی ہے اب نگاہوں میں
دھواں کو دھند بھی کہتے ہیں
اور نہیں کہتے
دھوئیں میں شکل جو پھرتی ہے
وہ دھواں تو نہیں
اک ایسی شکل جو دل سے ذرا مشابہ ہے
وہ ایک فیصلہ عجلت میں ہو گیا تھا کبھی
وہ فیصلہ جسے ہونا تھا سرخرو اک دن
وہ دن تو آ بھی چکا رات کی سیاہی میں
کمی ہے مجھ میں بہت قوت ارادی کی
میں مانتا ہوں مگر تم کو کون سمجھائے
ہے ایک اور بھی قوت جو خامشی کی ہے
ہے ایک اور بھی طاقت
جو چھپ کے بیٹھی ہے
سخن کی آخری صف میں
سخن کی شدت میں

جو قوتیں مجھے حاصل ہیں
ان کے بارے میں
جو کچھ کہوں بھی تو پھر خامشی در آئے گی

یہ بات کس نے کہی کب کہی نہیں معلوم
نہ کوئی غیر ہے میرا نہ کوئی اپنا ہے
جو کچھ کہوں تو وہ کچھ اور بولنا چاہے
کہیں چلوں تو وہ صدیوں کا فاصلہ چاہے
یہ مجھ میں کون چھپا ہے جو میرے ہونے سے
کبھی تو خوش ہے بہت اور کبھی ہے خوف زدہ
مگر اسی سے مسلسل ہے گفتگو جاری
یہ میری ذات کا ہے غیر یا کے ذات مری
یہ کیا ضرور کہ اس کو بھلا سا نام بھی دیں
یہ لفظ غیر بھی کتنا عجیب لگتا ہے
غیاب جس کو سمجھتے ہیں کوئی غیر نہ ہو
یہ فلسفہ ہے کوئی یا کوئی کہانی ہے
یہ اس کے اور مرے ہونے کی نشانی ہے

سرور الہدی
26 مئی 2024
دہلی