دہلی میں “نئے نقاد کے نام خطوط ” کی اشاعت

یہ تحریر 125 مرتبہ دیکھی گئی

دہلی کے ایک معیاری اشاعتی ادارے عرشیہ پبلکیشن سے” نئے نقاد کے نام کو خطرط” اس ہفتے شائع ہوجائے گی۔کتاب کا ٹائٹل پیج عرشیہ پبلیکیشن کے مالک اظہار احمد ندیم صاحب نے آج بھیجا۔عام طور پر وہ خود ہی ڈیزائن کرتے ہیں۔اس تعلق سے ان کے یہاں ایک تخلیقی ذہن بھی ہے جو کتاب کے موضوع کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔یہ ہم آہنگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کتاب کی اشاعت سے پہلے کتاب کے موضوع کے ساتھ رشتہ قائم کرتے ہیں۔ ادارہ ہر کتاب کے ساتھ ایک ہی جیسا رویہ جمہوری اختیار کرتا ہے لیکن کتاب کی معنویت اپنے طور پر ادارے اور قاری کو متوجہ کر لیتی ہے۔ادھر کتابوں کے کور پیج پر لوگوں نے اتنی توجہ صرف کی ہے کہ جیسے یہی سب کچھ ہو۔ اسے بھی تحسین کی نظر سے دیکھا جانا چاہیے لیکن قاری کو آخر کار کتاب کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔اور اس کے لیے یہی سب کچھ ہے۔رنگوں کے انتخاب اور رنگوں کی کثرت نے جو صورت اختیار کی ہے اس سے کبھی کبھی دل گھبرا اٹھتا ہے۔نئے نقاد کے نام خطوط کا ٹائٹل پیج سادہ ہے۔مگر کتنا پرکشش ہے۔لفاف بند ہے یا کھلا ہے اس کا تعلق تو دیکھنے والے کی نظر سے ہے۔ یہ لفافے منتظر ہیں کہ انہیں نام اور پتے کے ساتھ روانہ کیا جائے۔ ۔چند خطوط دہلی بھی آئے۔اور ایک ایسے موسم میں آئے جب ان کا آنا دشوار تھا۔یہ سفر کتابوں کے اور خطوط کے عام سفر سے بہت مختلف ہے۔ایڈورڈ سعید نے اس نکتے کی جانب اشارہ کیا تھا کہ نظریے کے سفر میں خود نظریے پر کیا گزرتی ہے۔نئے نقاد کے نام خطوط نظریہ سازی کی کسی کوشش کا اس معنی میں پتہ نہیں دیتے کہ خط لکھنے والے نے سمجھنے اور سمجھانے کا طریقہ اختیار کیا ہے اور جسے غرور کہتے ہیں اس کا شائبہ تک نہیں ہے۔ادب میں زندگی کے تضادات کیوں کر اور کس طرح وحدت قائم کرتے ہیں،یہ بھی ان خطوط کا ایک اہم مسئلہ ہے۔تضادات کو نظریانے کی کوشش میں بعض نقادوں نے زندگی اور ادب سے گہری آشنائی کا ثبوت نہیں دیا ۔مشکل یہ ہے کہ نظریہ اپنی فطرت کے اعتبار سے مختلف مسائل کے ساتھ تشکیل کے عمل سے گزرنے لگتا ہے اور اکثر اوقات نقاد کو اس کی خبر نہیں ہوتی۔یہ ٹھیک ہے کہ نظریہ سازی ایک علمی مشغلہ اور شعوری عمل ہے لیکن ان خطوط کے سیاق میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ناص عباس نیر نے افہام و تفہیم کے وسیلے سے نظریے کو گوارا بنا دیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ نظریہ سازی کوئی ایسی شے نہیں جسے اتنے فاصلے کے ساتھ دیکھا جائے۔گویا نظریہ اس وقت بھی موجود ہوتا ہے جب ہم نظریے سے ان کا انکار کر رہے ہوتے ہیں۔آل احمد سرور نے “نظر اور نظریے”جیسا عنوان قائم کر کے بہت پہلے یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ اگر نظر گہری ہو اور وہ مسلسل نئی دنیا کی تلاش میں ہو تو ایسے میں اس کا نظریے میں تبدیل ہو جانا حیرت ناک نہیں. یہ خطوط جن لوگوں کو موصول ہوئے ان کے بارے میں کبھی کبھی انہی کی تحریروں کے حوالے سے کچھ معلوم اس سے پتہ چلتا ہے کہ کیوں کر اور کس طرح نئے نقاد کے نام خطوط پڑھنے والے کے ذوق اور اس کی توفیق بلکہ ذہانت کے اعتبار سے تجربے کا حصہ بنے.اس کتاب کے قارئین کی اتنی بڑی تعداد ہے کے لفافے بہت درکار ہوں گے۔میں کس طرح اور کس زبان میں اس حقیقت کا اظہار کروں کہ اس کتاب کے سلسلے میں ادب کے سنجیدہ قارئین نے جتنی اور جیسی دلچسپی کا اظہار کیا ہے وہ ایک اہم ادبی واقعہ ہے۔جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے خطوط الگ الگ سمتوں میں اپنی روانگی کا جشن مناتے دکھائی دیتے ہیں یہ روانگی تمام قسم کے تعصبات سے ماورا ہے۔جس طرح کتاب کے خطوط اپنے مسائل اور میلانات کے اعتبار سے بلند ہیں ۔یہ لفافےمیرا خیال ہے کہ سنگ میل پبلیکیشز نے جس رنگ کا انتخاب کیا تھا اس کا ایک اپنا جواز تھا۔عرشیہ پبلیکیشن نے جس رنگ کا انتخاب کیا ہے اس میں وہ روشنی شامل ہے جو ہندوستان کے قارئین نے اس کتاب کے لیے محفوظ کر رکھی ہے۔
خطوط میں خیالات کا اس قدر دباؤ ہے کہ اسے دیکھ کر شاد عظیم آبادی کا شعر یاد آتا ہے۔متکلم جو خط لکھنے والا ہے قاصد کو کچھ زبانی بھی کہنا چاہتا ہے۔مجھے اس قاصد کا سراغ انہی خطوط سے ملا ہے۔
بیان حال خط شوق سے زیادہ ہے
یہ بات کان میں قاصد کے ڈال دیتے ہیں
شاد عظیم آبادی
دہلی میں اس کتاب کی اشاعت پر نہ صرف عباس نیر صاحب کو بہت مبارک باد۔ادب کے وہ قارئین جنہیں ہندوستان میں اس کتاب کے اشاعت کا انتظار تھا ان کے لیے بھی یہ اطلاع خوشی کا باعث ہے۔
سرور الہدی
دہلی
28 مئی 2024