انتظارِ حسین کا خواب میں آ نا

یہ تحریر 99 مرتبہ دیکھی گئی

کل رات انتظار حسین کو خواب میں
دیکھا۔ جاگتی آنکھوں کا خواب بند آنکھوں کے خواب سے مختلف ہوتا ہے۔صبح جب آنکھ کھلی تو دھوپ میرے کمرے میں داخل ہو چکی تھی۔نیند کب آئی اور اسے خواب کے مرحلے تک پہنچنے میں کتنا وقت لگا،اس بارے میں کوئی بات کیسے لکھی جا سکتی ہے۔ دیر سے جاگنے کا سبب خواب بھی ہو سکتا ہے، ادھر خواب کا سلسلہ ختم ہوا اور ادھر آنکھ کھل گئی۔کافی دیر تک سوچتا رہا کہ انتظار حسین آج کیوں خواب میں آئے ۔گزرے ہوئے دن پر غور کرتا رہا کہ شاید انتظار حسین کا کسی طالب علم سے کچھ ذکر کیا ہو یا ان کی کوئی تحریر مطالعے میں آئی ہو ۔
سرور تم نے افسانہ تو مانگ لیا تھا لیکن اسے شائع نہیں کیا۔
جی افسانہ منتخب کر لیا گیا تھا جلد شائع ہو جائے گا
شفیع جاوید صاحب سے دریافت کرتا ہوں۔
انتظار حسین سے جو خواب میں مکالمہ ہوا ہے اسے انہی الفاظ میں یاد کر کے لکھ رہا ہوں۔مکالمہ طویل تو نہیں تھا پھر بھی ایک مختصر سا مکالمہ میرے لیے اور میرے خواب کی دنیا کے لیے کتنا اہم ہے ۔کئی دن ہوئے شمیم حنفی کے نام انتظار حسین کے خطوط ایک ہی نشست میں پڑھتا چلا گیا ۔ہو سکتا ہے خواب کی تشکیل میں ان خطوط کا بھی کچھ حصہ ہو۔لیکن شفیع جاوید کا حوالہ انتظار حسین کے تعلق سے ایک خاص معنویت کا حامل ہے۔شفیع جاوید نے کوئی رسالہ نہیں نکالا لیکن میرا انتظار حسین سے یہ کہنا کہ میں افسانے کی اشاعت کے بارے میں شفیع جاوید صاحب سے دریافت کروں گا حیران کن ضرور ہے۔انتظار حسین نے عظیم آباد کا سفر بھی کیا تھا اس کی تفصیل زمین اور فلک اور میں موجود ہے۔انتظار حسین 2015 میں دہلی آئے تھے۔یہ ان کا آخری سفر تھا۔جامعہ کےگیسٹ ہاؤس سے وہ ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوئے،اصغر ندیم سید صاحب ان کے ہمراہ تھے۔میں انہیں رخصت کرنے کے لیے موجود تھا۔انہی دنوں بلراج مین را پر میری کتاب “بلراج مین را ایک ناتمام سفر” شاعر ہونے والی تھی۔میری درخواست پر انہوں نے کتاب کے لیے چند جملے تحریر کیے۔اسی سفر میں میرے عزیز شاگرد عبدالسمیع نے ان سے گسیٹ ہاؤس میں انٹرویو کیا تھا جو “اردو دنیا “میں شائع ہوا ۔پلٹ کر دیکھتا ہوں تو بہت سی باتیں اس سفر کے تعلق سے یاد آتی ہیں۔شمیم حنفی صاحب کے گھر پر انتظار حسین صاحب اور اصغر ندیم سید صاحب کے ساتھ جو وقت گزرا وہ بہت یادگار تھا۔میں تقریباً خاموش تھا۔شمیم حنفی صاحب گفتگو میں شریک کرنے کے لیے کوئی ایسا موضوع نکالتے جس میں میں شریک ہو سکوں۔کبھی گویا ہو جاتا اور پھر فوراً خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔انتظار حسین کی گفتگو بھی خاموشی ہی کا بدل معلوم ہوتی تھی۔اس خاموشی میں کتنا اسرار تھا۔یہ اسرار حیات اور کائنات کے اس خاموش عمل کا تھا جس کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش میں کیسی کیسی شخصیات رخصت ہو گئیں ۔کتنے زمانے گزرے ۔اسرار کو کیسے کیسے عنوانات دیے گئے۔سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش , کتنی معصوم اور سادہ تھی۔ سرخروئی اور رسوائی کی تاریخ ایک ساتھ سفر کا آغاز کرتی ہے۔انتظار حسین کی گفتگو میں کتنا ٹھہراؤ تھا اور اندر اندر کیسی ہلچل تھی۔مجھے ان کی گفتگو میں زبان کی وہ ساخت دکھائی دیتی تھی جسے کلچر کہا جاتا ہے اور زبان کا کلچر۔خواب میں انتظار حسین کے چند جملے ان جملوں سے مختلف تو نہیں تھے جو کتابوں میں موجود ہیں۔انتظار حسین کی کتابوں کو آج نئے سرے سے سینے سے لگایا اور دیر تک انہیں دیکھتا رہا۔ان کتابوں میں آخری آدمی کا پہلا ایڈیشن بھی ہے جس کا دیباچہ با قر نے لکھا تھا “اپنی دانست میں”شمیم حنفی صاحب سے ملی تھی۔نظریے سے آگے خود ہی مل گئی تھی۔علامتوں کا زوال پہلے سے موجود تھی۔فکشن سفرنامہ،مضمون،سوانح کون کس کی طرف دیکھتا ہے۔انتظار حسین نے ان سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا تھا۔لیکن اس دیکھنے میں دوسروں کے لیے پریشانی کا سامان بہت تھا۔قصور اس وقت کا تھا جس نے انتظار حسین کو سمجھا نہیں اور قصور اس کا بھی تھا جس نے کچھ سمجھنے کے باوجود غلط طریقے سے دوسروں کو سمجھایا یا پھر کھلی طور پر خاموشی اختیار کر لی۔
خواب اور خواب کی تعبیر
اس خواب کی تعبیر جس کا رشتہ انتظار حسین کی شخصیت سے
دیکھتے دیکھتے خواب کا خواب میں تبدیل ہو جانا اور وحید اختر کے شعر کا یاد آنا
ہر خواب ہر خیال سے بھی کچھ پرے کچھ اور
خوابوں کی آنکھ میں بھی کوئی اور خواب ہے
اردو کے اتنے بڑے ادیب کا خواب میں آنا
اشارہ ہے کس بات کا
اپنے زمانے کے فکشن کو پڑھنے یا اسے رد کرنے کا
یا پھر بے دلی کے ساتھ ہی اس کو دیکھنے کا
اشارہ فکشن کی اس زبان کی طرف بھی ہو سکتا ہے
جس کو کھو دینے کی وجہ سے
فکشن تجربات کا بوجھ تو اٹھانے میں کامیاب ہو گیا
لیکن فکشن کی وہ زبان جو فطری تھی دور ہوتی چلی گئی
یہ زبان کچھ مقامی بھی تھی
قصباتی بھی تھی
انتظار حسین کا خواب میں آنا
کل تو میں نے کوئی نئی کہانی بھی نہیں پڑھی تھی
ہاں یاد ہے کہ چند دنوں پہلے ایک نیا ناول پڑھا تھا
جس کا شہرہ بہت تھا
پڑھنے کے بعد میں کتنا مایوس ہوا تھا۔
ہاں کل پریم چند کو کسی خاص ضرورت سے دیکھا تھا۔کئی جملے اتنے تخلیقی تھے کہ جی چاہا کہ اب ایک مرتبہ اور پریم چند کو ٹھیک سے پڑھا جائے۔
یہ بھی یاد ہے کہ بک فیئر سے ہندی کے اہم اسکالر اپوروانند کی کتاب “یہ پریم چند ہیں”خرید لی تھی۔
پریم چند سے انتظار حسین کا رشتہ کیسا اور کس نوعیت کا تھا۔
یاد آتا ہے کہ چند سال پہلے کسی ناول نگار کی زبان نے طبیعت کو مکدر کر دیا تھا ۔ اس کیفیت سے خود کو نکالنے کے لیے “بستی” اٹھا لی تھی۔زبان کہانی تھی اور کہانی زبان تھی لوگ بھی کہانی تھے بستی بھی کہانی تھی تکنیک بھی کہانی تھی اور جو کچھ تھا وہ سب کہانی تھا یا کہانی کو تقویت پہنچانے کے لیے تھا ۔اس شام بستی کے محض 10 صفحات میں کتنا سرشار کر دیا تھا اور اسے کتنا یادگار بنا دیا۔اب شاید بستی کو وہ شام میسر نہ آئے ۔جی چاہا تھا کہ انتظار حسین سے بستی کے ان ابتدائی دس صفحات کا ذکر کروں۔کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی اور کہنے کی خواہش بھی بہت تھی۔
انتظار حسین کا خواب میں آنا
کہیں یہ اشارہ تو نہیں کہ میں نے فکشن کا انتخاب کچھ زیادہ سخت کر لیا ہے
انہیں بھی اس بات کا احساس ہوگا کہ کبھی کبھی تھوڑی نرمی برتنی چاہیے
نرمی کا دوسرا نام گنجائش بھی ہے
گنجائش زندگی کو آسان بنا دیتی ہے
کہیں انتظار حسین کا اشارہ اس جانب بھی نہ ہو کہ تم نے کتنا اوسط درجے کا ان دنوں فکشن پڑھا ہے۔
فکشن کبھی کبھی بلکہ اکثر اوسط درجے کا معلوم ہوتا ہے
کبھی وقت سے کچھ اہم ثابت کر دیتا ہے
کسی کا اہم ہونا اس کا بڑا ہونا نہیں ہے
انتظار حسین خواب میں کیوں آئے
کیا میں نے ان کی کوئی تحریر کچھ اس طرح نہیں پڑھی جس طرح وہ پڑھے جانے کا تقاضا کرتی ہے
لیکن انتظار حسین کو اس کی پرواہ کہاں تھی کہ کوئی انہیں پڑھتا ہے یا کس طرح پڑھتا ہے
کیسی طمانیت تھی،کیسا وقار تھا۔
یہاں شمیم حنفی تھے جو ان کے فکشن کے سب سے بڑے راز نہ تھے
ان کے ساتھ رازداری کا ایک دور بھی رخصت ہو گیا۔
انتظار حسین کے رخصت ہونے کے بعد شمیم حنفی نے کہا تھا
بہت کچھ رخصت ہو گیا
میں سوچتا ہوں کیا باقی رہ گیا ہے
انتظار حسین خواب میں کیوں آئے
کبھی کبھی اس خیال سے ڈر لگتا ہے
کبھی حوصلہ ملتا ہے
لیکن یہ خواب نئے سرے سے اپنے زمانے کے فکشن اور ادب بلکہ ادیب سے رشتے کی نوعیت پر غور کرنے کی تحریک بھی دیتا ہے۔ انتظار حسین کا خواب میں آنا
کسی روایت سے روبرو ہونا ہے
کسی روایت کو کورت کرنا نہیں بلکہ اسے اپنی نظر سے دیکھنا ہے
فکر و خیال کی دنیا کو ایک خاص سطح اور نہج کا حامل بنانا ہے۔
فکر و خیال کی سطح ہے
فکر و خیال کی سطح کا زوال پذیر ہونا
کہانی فکر اور خیال کو کس مقام پر رکھنا چاہتی ہے
کہانی کب اور کتنا فکر کے بوجھ کو اٹھانا چاہتی ہے
کہانی اپنے زمانے کی سیاست سے گریزاں تو نہیں
کہانی زمانے کو لازمانی بنا سکتی ہے
انتظار حسین کا خواب میں آنا
کہانی کے اسلوب کو دریافت کرنا تو نہیں
کیا عجب کے انتظار حسین کا اسلوب ابھی تک ہماری گہری شناسائی کا حصہ نہ بنا ہو
جاتک کتھائیں،کتھا سرت ساگر،ملفوظات،حکایات،قصص اور کہانیاں
خواب نے ان سب کو نئے سرے سے ہمارے لیے مطالعہ کا موضوع بنا دیا ہے۔
ان میں کتنے اسالب ہیں
انتظار حسین نے کہا تھا۔
ہم نے ان سالیب سے استفادہ نہیں کیا
زمانے کو کتنا دھوکہ ہوا
اس میں کچھ بوڑھے ہوتے ہوئے نوجوان بھی شریک تھے
جنہیں شکوہ تھا انتظار حسین سے اور ان کے فکشن سے۔

خواب کی تشکیل کا کوئی سرا ہاتھ میں آیا بھی کہاں
جو سرا ہاتھ میں آیا اس کے بارے میں کچھ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا
انتظار حسین کا خط شمیم حنفی کے نام
ایک خط میں لکھا تھا
مین را کہانی لے گیا اور چپکا بہہ گیا
کہیں ایسا تو نہیں کہ خواب میں وہی کہانی آگئی ہو
کہانی انتظار حسین ہے
اور انتظار حسین کہانی
بلراج مین را کی کہانی انتظار حسین کی کہانی تو نہیں
کتنا فرق ہے اسلوب میں
اور وہ خط جو انتظار حسین نے بلراج مینرا کو لکھا تھا
نئے افسانہ نگار بلراج مین را کے نام
نیا افسانہ تمہیں مبارک ہو
بلراج مینرا کے دوست با اخر مہدی نے لکھا
نئے افسانے کو خطرہ انتظار حسین کی داستانوی کہانیوں سے
انتظار حسین کا خواب میں آنا
خواب دیکھنے کا وقفہ کتنا مختصر تھا
اور کتنا طویل
شام ہوتے ہوتے خواب میں بستی کی راہ لی
بستی میں کتنی بستیاں آباد ہیں
آگے سمندر ہے
خواب کے ساتھ کہانی رخصت نہیں ہوئی
محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کہانی خواب کی منتظر تھی
انتظار حسین کو پڑھا تھا
جاگتی آنکھوں کے ساتھ پڑھا
خواب آلود آنکھوں سے
کہانی دیکھی جا سکتی ہے
پڑھی بھی جا سکتی ہے
انتظار حسین کی کہانی خواب کی صورت میں
اسے خواب بننے میں کتنا وقت لگا
حقیقت کتنی پاس اور گریزاں تھی
وہ جملے جو بلراج مینرا ایک ناتمام سفر کے فلیپ پر درج میں
کیا پتہ تھا آصف کو اس قدر پسند آئیں گے
چراغ شب فسانہ
دہلی آئی
ذاکر باغ میں ایک مکان کی چوتھی منزل
سرور دیکھو آصف نے تمہاری کتاب کا کس جوش اور جذبے کے ساتھ ذکر کیا ہے
کتاب کی رسید ایسی ہوتی ہے
شمیم حنفی کے یہ جملے
فضا میں کھوئے نہیں
وہ ذہن پر نقش ہو گئے
“چراغ شب فسانہ” کا وہ صفحہ
اس شام کتنی آسانی سے مل گیا تھا
شمیم حنفی کے رخصت ہونے کے بعد
محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ کھو گیا ہے

خواب کا کوئی سرا “چراغ شب فسانہ کا یہ صفحہ بھی ہو سکتا ہے
سرور آصف نے کتنی محنت کی ہے
انتظار صاحب پر اب شاید ہی ایسی کتاب شائع ہو

انتظار حسین کا خواب میں آنا

سرور الہدیٰ
نئی دہلی
20/05/2024