تفسیر شعر اقبال

یہ تحریر 545 مرتبہ دیکھی گئی

قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
قافلۂ حجاز: مراد ہے امتِ مسلمہ، خاص طور پر سرزمینِ حجاز (یعنی مکہ و مدینہ) کی نسبت رکھنے والی قیادت، یا مسلمانوں کی مجموعی تحریک۔
حسین: یہاں “حسین” (حضرت امام حسینؓ) علامت ہیں سچائی، قربانی، صداقت، روحانی جرات اور ظلم کے خلاف قیام کی۔
تابدار: روشن، چمکدار
گیسوی دجلہ و فرات: دریائے دجلہ و فرات کی بل کھاتی ہوئی لہریں جیسے حسین زلفوں کی مانند؛ علامتی طور پر اسلامی دنیا کے ماضی کی تہذیبی و روحانی شکوہ کی طرف اشارہ۔
علامہ اقبال کے نزدیک “حسین” ایک فرد نہیں بلکہ روحِ کربلا کا استعارہ ہے — وہ جو باطل کے خلاف کھڑا ہو، جو عشقِ حقیقی کی خاطر جان نچھاور کر دے، اور جو دین کو رسم سے نکال کر روح میں اتار دے۔
یہ شعر اس حقیقت پر نوحہ ہے کہ:
آج کے مسلمانوں کی قیادت اور امت کا مجموعی رویہ روحِ حسینی سے خالی ہو چکا ہے۔
اگرچہ اسلامی تہذیب کی ظاہری جھلکیاں (مثلاً دجلہ و فرات جیسے علاقے، اسلامی آثار، تاریخ کی روشنی) اب بھی چمک رہی ہیں، مگر باطن سے وہ نور، وہ روح، وہ جذبۂ قربانی، وہ عشقِ محمدی غائب ہے۔

  1. باطن کی فقر و ویرانی: وہ روحانی وجود جو عشق و فداکاری سے معمور تھا، وہ اب نظر نہیں آتا۔ صرف رسم و رواج باقی رہ گئے ہیں۔
  2. شہادتِ حسینؓ ایک معیار ہے: ہر دور کا “حسین” وہی ہے جو ظاہری سچائی نہیں بلکہ باطنی وفا اور روحانی صداقت کے لیے کھڑا ہو۔
  3. دریا تابدار ہیں، مگر پیاس بجھانے والے کہاں؟: دجلہ و فرات کی مانند اسلامی ورثہ تو باقی ہے، لیکن جو اس سے فیض حاصل کرے، جو خود کو اس کے مطابق ڈھالے، وہ موجود نہیں۔
  4. دعوتِ خودی و احیائے روحِ محمدی: اقبال دراصل ہمیں بیدار کر رہے ہیں — کہ تم اگر “قافلۂ حجاز” ہو، تو اپنے اندر “حسین” پیدا کرو، ورنہ یہ قافلہ راہ بھٹک جائے گا۔
    یعنی ہر ایک میں وہ عشق نہیں جو دیدار کا طلبگار بنے۔
    اسی طرح اقبال کہتے ہیں: “قافلہ تو ہے، مگر عشقِ حقیقی کے راہی کہاں؟

یہ شعر علامہ اقبال کی فکر، دردِ امت، اور تہذیبی زوال کے شدید احساس کا آئینہ دار ہے۔

  1. استعارۂ “قافلۂ حجاز”:
    قافلۂ حجاز سے مراد امتِ مسلمہ ہے، وہ کاروان جو حضور ﷺ کے نور سے چل نکلا تھا۔
    حجاز چونکہ اسلام کا مرکز و مبدأ ہے، اس لیے اقبال یہاں پورے عالمِ اسلام کو اس قافلے کے طور پر بیان کر رہے ہیں۔
  2. “حسین” کا نہ ہونا:
    امام حسینؑ، علامہ اقبال کے نزدیک روحِ قربانی، حریت، حق گوئی اور باطل سے ٹکرانے کا استعارہ ہیں۔
    یہاں اقبال امت کے اس فکری زوال کا ماتم کر رہے ہیں کہ
    “امت میں اب کوئی ایسا مردِ حق پرست نہیں رہا جو یزیدی طاقتوں کے خلاف سینہ سپر ہو۔”
  3. “تابدار گیسوئے دجلہ و فرات”:
    دجلہ و فرات عراق کی دو عظیم الشان اور زرخیز ندیاں ہیں۔
    “تابدار گیسو” ایک ادبی استعارہ ہے جو ان دریاؤں کی فطری خوبصورتی، زرخیزی اور تہذیبی شان کو ظاہر کرتا ہے۔
    اقبال یہاں کہہ رہے ہیں کہ ظاہری شان و شوکت، وسائل اور قدرتی دولت تو باقی ہے، مگر باطنی روح، غیرت، ایثار اور فکری بصیرت ناپید ہو چکی ہے۔
  4. روحِ کربلا کا فقدان:
    اقبال کی فکر میں کربلا محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک ابدی علامت ہے حق و باطل کے تصادم کی۔اقبال امام حسینؑ کو “مردِ کامل” کے مثالی نمونے کے طور پر دیکھتے ہیں
    “مسلم را ز حُرّیت حسین آموخت”
    (مسلمان نے آزادی کا درس حسینؑ سے سیکھا)
    اس شعر میں وہ امت کو جھنجھوڑتے ہیں کہ تم میں اب نہ وہ روح ہے نہ وہ جرات جو کربلا والوں میں تھی۔
  5. امتِ مسلمہ کا زوال:
    اقبال بارہا امت کے فکری جمود، غلامانہ ذہنیت اور قربانی کے جذبے کی کمی پر اظہارِ افسوس کرتے ہیں۔یہ شعر بھی اسی تسلسل میں ہے — تنظیم ہے، وسائل ہیں، مگر ایمان کی حرارت اور قربانی کی روح نہیں۔
  6. اسلام کی تجدید کی ضرورت:
    اقبال کی شاعری کا ایک بنیادی مقصد تجدیدِ ملت ہے — اور وہ اس تجدید کو حسینی روح سے مشروط سمجھتے ہیں۔
    “گیسو” کا استعمال دریاؤں کے بہاؤ اور پیچ و خم کے لیے نہایت بصری اور شعری جمال رکھتا ہے۔
  7. متضاد تصاویر:
  8. ایک طرف روحانیت اور قربانی کی کمی (حسین کا نہ ہونا)
    دوسری طرف مادی و قدرتی زیبائی (تابدار گیسوئے دجلہ و فرات)
    اقبال اس تضاد کے ذریعے امت کی باطنی کھوکھلا پن نمایاں کرتے ہیں۔