دختر شاعر مشرق،شہزادی حکیم الامت،بنت پاکستان محترمہ بانو منیرا اقبال کی 95 ویں سالگرہ

یہ تحریر 121 مرتبہ دیکھی گئی

دختر شاعر مشرق،شہزادی حکیم الامت،بنت پاکستان محترمہ بانو منیرا اقبال کی 95 ویں سالگرہ
(31اگست 2025ء) کے موقع پر

ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
زندگی کی بے ثباتی،خواب ہستی کا وہ فریب ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک جاری وساری رہے گا ۔دیکھتے ہی دیکھتے کیسے کیسے چاند مٹی میں جا ملتے ہیں کہ عقل انسان حیران رہ جاتی ہے۔ زندگی کا یہ حال کچھ اس طرح الجھا الجھا اور اتنا بکھرا بکھرا سا ہے کہ باوجود کوشش کے بھی ہم اپنا دامن نہیں بچا سکتے۔ وقت اس طرح زروں میں بٹ گیا ہے کہ بسا اوقات کار و بار حیات میں کھو کر کبھی کبھی انسان اپنے بارے میں بھی بھول جاتا ہے۔ یوں وقت کے سیل رواں میں بہتے ہوئے ہمیں یہ احساس تک نہیں ہو پاتا کہ کتنی حقیقتیں کب اور کس قدر خاموشی سے فسانہ بن گئیں، مشیت ایزدی مسلمان کا ایمان ہے اس کے باوجود کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے ۔ کاش، ابا جان میرے باشعور ہونے تک زندہ رہتے مگر …
خواہشات کا پورا ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ آج بھی جب میں آنکھیں بند کرتی ہوں تو میرے سامنے ابا جی کا ہنستا مسکراتا چہرہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ابھرتا ہے جہاں یہ بھولی بسری یادیں، ذہن و دل کو پریشان کر سکتی ہیں، وہاں اکثر تسکین قلب کا باعث بھی بنتی ہیں۔ یہ الفاظ حضرت علامہ اقبال کی باوقار، با شعور اور قابل احترام بیٹی محترمہ بانو منیرہ اقبال کے ہیں۔علامہ کا وجود اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور جگر گوشوں کے علاوہ برصغیر ہند کے مسلمانوں کے دلوں کی دھر کن ہے ۔آج وہ ہم میں نہیں مگر جب بھی ان کے بارے میں سوچا جائے یا پڑھا جائے تو روح کی گہرائیوں سے ہدیہ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ یہی جذبہ شوق اور غیر مرئی طاقت مجھے ان کے دولت خانے پر لے گئی۔۔۔۔۔۔ بانو منیرہ اقبال کی طرف سے جو یادداشتیں یا تاثرات بیان ہوئے ہیں، وہ بہت محدود اور مختصر ہیں کیوں کہ بانو منیرہ اقبال زیادہ تر خاموش طبع، نجی زندگی گزارنے والی خاتون ہیں۔ تاہم مختلف کتابوں، سوانح عمریوں، اور ان افراد کے بیانات سے جو علامہ اقبال کے قریبی تھے، اور بعض موقعوں پر راقم نے ان سے چندانٹرویوز کیے ہیں جن کو حیطہ تحریر میں لاتے ہوئے کچھ اہم نکات سامنے آتے ہیں جن سے بانو منیرہ کی شخصیت اور ان کے والد گرامی سے متعلق نہایت اہم باتوں کا پتہ چلتا ہے۔جسے پہلے کبھی منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ ذیل میں چند اہم حوالہ جات اور یادداشتوں کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:
آج 2025ء میں علامہ محمد اقبال کو ابا جان کہہ کر پکارنے کی سعادت فقط منیرہ بانو کے نصیب میں ہے، یہ شرف اب کسی اور کے حصے میں کہاں!
محترمہ بانو منیرا اقبال صاحبہ کی ولادت 7 ربیع الثانی 1349 ہجری بمطابق 31 اگست 1930 عیسوی بروز اتوار میکلوڈ روڈ (رہائشگاہ اقبال 1922ء تا 1935ء) میں زنان خانےکی درمیانی کوٹھری میں ہوئی۔”میری تاریخ پیدائش 31 اگست 1930 ہے جب میرے ابا (علامہ محمد اقبال )اس دنیا سے رخصت ہوئے۔تو اس وقت میری عمر آٹھ برس کے قریب تھی۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالد نظیر صوفی اپنی کتاب اقبال درون خانہ میں لکھتے ہیں:
“میری والدہ صاحبہ( محترمہ وسیمہ مبارک )کے بیان کے مطابق جب منیرہ خالہ پیدا ہوئیں اور نانا جان مرحوم نے پہلی بار انھیں دیکھا تو سر ہلا کرفرمایا: ” یہ تو بالکل معلمہ نظر آتی ہے ۔ ان کا اندازہ بالکل درست ثابت ہوا اور آج منیرہ خالہ بڑے رعب اور دبدبے کی مالک ہیں “۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالد نذیر صوفی اپنی کتاب اقبال درون خانہ میں لکھتے ہیں ۔
“آپ (علامہ اقبال) بیٹی کی پیدائش کو رزق میں برکت کا سبب قرار دیا کرتے تھے۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“باقی اب زندگی میں کوئی دلچسپی مجھ کو نہیں رہی صرف جاوید و منیرا کی خاطر زندہ ہوں۔”
(علامہ محمد اقبال)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقول بانو منیرا “مجھے کوئی ایسا واقعہ یاد نہیں جس پر میری کہی ہوئی کوئی بات یا فرمائش ٹالی گئی ہو۔جو کہتی خرید دیاجاتا ،جو چاہتی پہنتی،جو چاہتی کھاتی،جہاں چاہتی جاتی اصل میں میری کوئی بھی فرمائش ٹھکرانے کی انھیں جرات ہی نہ تھی”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“حکیم الامّت کو اپنی صاحب زادی، منیرہ بانو سے بے حد محبّت تھی۔علّامہ کے برادر زادے، شیخ اعجاز احمد کے مطابق ایک بار بچپن میں ہماری چچی جان نے منیرہ کے الجھے ہوئے بالوں میں کنگھی کرنی چاہی، تو وہ رونے لگی۔اس پر علّامہ صاحب نے اپنی بیگم صاحبہ سے فرمایا،’’یہ کنگھی کروائے یا نہ کروائے، مگر اس کو رونے نہ دیا کرو۔مَیں اس کے رونے کی آواز نہیں سُن سکتا۔دل کو تکلیف ہوتی ہے۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بانو منیرا اقبال سے حضرت علامہ کی پدرانہ شفقت کی انتہا کے بارے میں بیگم محمودہ ریاض صاحبہ ایک واقعہ نقل کرتی ہیں کہ جب بھی حضرت علامہ لیٹتے بانو کو اپنے سینے پر بٹھا لیتے اور بانو شوخی سے کودنے لگتی وہ انھیں بے حد پیار کرتے ۔علامہ اپنی بیٹی کو اپنے پاس سلا لیتے اور جب تک کہ بانو سو نہ جاتی اسے سینے سے لگائے رکھتے۔
بہر حال میری ذہنی کیفیت کو بھانپتے ہوئے منیرہ صاحبہ نے ذہن پر زور ڈالتے ہوئے کہا مجھے یاد ہے کہ مسز ڈوریس احمد جو ایک جرمن خاتون تھیں، میری والدہ محترمہ کی وفات کے بعد انھوں نے ہی ہم دونوں بہن بھائیوں کو ایک مشفق ماں کی طرح پالا ہے ہماری دیکھ بھال کے علاوہ تدریس کے فرائض بھی انجام دیتی تھیں۔ ان کی حیثیت ہمارے گھر میں ایک فرد کی سی تھی۔ ایک دفعہ میں نے برجستہ انہیں کلمہ شریف سنانے کے لئے کہا۔ مسز ڈوریس احمد نے نفی میں سر ہلایا تب میری حیرانی کو بھانپتے ہوئے ابا جان نے مجھے پیار سے اپنے پاس بلایا اور پیار کرتے ہوئے کہا۔ ہاں ہاں منیرہ تم انھیں کلمہ شریف سکھاو۔ ہمارے پاس ہی محترمہ محمودہ ریاض بیٹھی ہوئی تھیں انھوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ بانو اس وقت بہت چھوٹی سی تھی مگر یہ اثر گھریلو مذہبی ماحول کے باعث تھا۔ منیرہ صلاح الدین کا گھریلو نام بانو تھا۔ رشتہ داروں اور عزیزوں کے ہاں وہ بانو ہی کے نام سے پہچانی جاتی ہیں مگر حضرت علامہ اقبال انھیں ہمیشہ منیرہ کہتے تھے۔حضرت علامہ اقبال آپ کو یا جاوید اقبال صاحب کو، دونوں میں سے کس کو زیادہ پیار کرتے تھے ؟اس کے جواب میں بھی بیگم محمودہ ریاض صاحبہ نے بھی ایک نجی واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ علامہ اقبال گول میز کانفرنس میں لندن شرکت کے لیے گئے جانے سے پہلے انھوں نے میرے نانا میاں نظام الدین کے نام ایک خط لکھا جس میں انھوں نے منیرہ کا ذکر بار بار کیا اور لکھا کہ میرے بچوں کی دیکھ بھال میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو۔ انھیں ہر قسم کی آسائش زندگی مہیا کی جائے۔ اس خط میں منیرہ کی تربیت کے بارے میں لکھا کہ اس کی پرورش خالص مذہبی اور اسلامی انداز میں کی جائے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقول ڈوریس احمد جاوید منزل میں میری آمد کے وقت منیرہ تقریباً چھ سال کی تھی ۔ وہ ابتدائی چند ہفتوں کے دوران شرمائی شرمائی اور اپنی اپنی سی رہی، تاہم رفتہ رفتہ وہ میرے ساتھ مل گئی۔ وہ شلوار قمیص پہنا کرتی تھی۔ وہ اپنے بالوں میں درمیان سے مانگ نکالتی اور لمبی چھیا باندھا کرتی تھی۔ اس کے بال لمبے اور خوب صورت تھے۔ ایک مرتبہ میں نے اس کے بالوں میں گنگھی کی اور دو چٹیا میں باندھ دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فی الفور یہ تبدیلی دیکھ لی اور کہا کہ یہ بال سنوارنے کا یہودی انداز ہے۔ انھوں نے بانو کو اس انداز سے بال سنوارنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے بعد سے میں ایک ہی چٹیا بنایا کرتی تھی۔
ڈاکٹر صاحب اسے زیادہ تر پیار سے ببی“ کہا کرتے تھے۔ وہ بعض اوقات اسے بانو بھی کہا کرتے تھے۔ گھر کا ہر فرداسے بانو کہا کرتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو اس سے بہت پیار تھا اور وہ اس سے بھی سختی سے بات نہیں کرتے تھے.
ڈاکٹر صاحب ہمیشہ بعد از دو پہر بچوں کے ساتھ دو پہر کا کھانا کھایا کرتے تھے اور منیرہ اور جاوید دونوں سے ان کی دن کی سرگرمیوں کے بارے پوچھا کرتے تھے۔ شام کو جب بچے رات کا کھانا کھا چکے ہوتے ، ہم سب جا کر تھوڑی دیر کے لیے ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں بیٹھتے۔ اس وقت چودھری محمد حسین عموماً موجود ہوا کرتے تھے۔ بانو کچھ دیر
باتیں کرتے ہوئے کمرے میں اِدھر اُدھر گھومتی اور پھر جب تھک جاتی تو ڈاکٹر صاحب کے بستر پر چڑھ کر سو جاتی۔ تب میں اسے اٹھا کر اندر اس کے کمرے میں لے جاتی جہاں ہم دونوں ساتھ ملی ہوئی چار پائیوں پر سویا کرتی تھیں۔ایک مرتبہ میں نے اس کے لیے سفید پھولوں والا سرخ رنگ کا سویٹر بنا۔سویٹر تیار ہوتے ہی اس نے اسے پہن لیا اور دوڑی دوڑی ڈاکٹر صاحب کو دکھانے گئی۔ وہ خوشی سے چلا رہی تھی:دیکھئے ! آپا جان نے میرے لیے کتنا پیارا سویٹر بنا ہے۔“ جب میں اس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی تو انھوں نے اس کے لیے ایسا رنگ بہ رنگا سویٹر بننے پر میرا شکریہ ادا کیا اور بولے:
“اب میں دور سے رنگ دیکھ سکتا ہوں اور اپنی ببی کو سکول سے واپس آتے ہوئے پہچان سکتا ہوں۔”

اس وقت تک ان کی بینائی بہت کمزور ہو چکی تھی اور وہ دور سے لوگوں کو پہچاننے میں بہت دشواری محسوس کرتے تھے۔

ایک شام کا ذکر ہے، ہم رات کے کھانے کے بعد ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں بیٹھے تھے کہ بانو نے اچانک مجھ سے کہا:
آپا جان ! کہیں لَا إِلَهَ إِلَّا الله۔“
جب میں اس کے ساتھ ساتھ بولی تو وہ خوشی سے تالیاں بجانے لگی اور بولی :
اب آپ مسلمان ہو گئی ہیں۔“
اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولی:
میں نے آپ کا نام فاطمہ رکھ دیا ہے ۔“
ڈاکٹر صاحب اس واقعے سے بہت محظوظ ہوئے۔ایک بار بانو نے شرارتا ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ میں نے اسے ناشتہ نہیں دیا،
حالاں کہ وہ ناشتہ کر چکی تھی۔ علی بخش کو مجھ سے معلوم کرنے کے لیے اندر بھیجا گیا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں آکر اسے شرارت کرنے اور جھوٹ بولنے پر چھڑکا۔ پھر میں نے اسے کمرے میں واپس لا کر ڈانٹا تا کہ اس پر واضح ہو جائے کہ اسے چھوٹا سا جھوٹ بھی نہیں بولنا چاہیے۔ بعد میں ڈاکٹر صاحب نے اس کی غیر موجودگی میں مجھ سے کہا کہ میں نے اسے جھوٹ بولنے پر ڈانٹ کر بالکل درست کیا تھا لیکن ساتھ ہی مجھ سے درخواست کی کہ اگر ممکن ہو تو میں ان کے سامنے اسے نہ ڈانٹوں، کیوں کہ اس سے انھیں دکھ ہوتا ہے۔
بقول ڈوریس احمد گرمیوں کے موسم میں ڈاکٹر صاحب نواڑی چار پائی پر باہر سویا کرتے تھے۔ ملازم لڑکا رحما، پہلے لان میں پانی کا چھڑکاؤ کرتا اور پھر ڈاکٹر صاحب اور جاوید کے بستر لگا دیتا۔ قریب ہی پیڈسٹل فین بھی رکھا جاتا تھا۔ منیرہ اور میں گھر کے پچھواڑے زنانہ صحن میں سویا کرتی تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان (علامہ محمد اقبال )کی وفات سے ایک سال پہلے ، ۱۹۳۷ء میں پنڈت نہرو ان سے ملنے آئے۔ ان کے میزبان میاں افتخار الدین اور ان کی بیگم ان کے ساتھ تھے۔ میں نے دیکھا کہ پنڈت نہرو ڈاکٹر صاحب کے حضور فرش پر بیٹھنے کا اصرار کر رہے ہیں۔ نتیجا میاں افتخار الدین اور ان کی بیگم کو بھی ان کے ساتھ فرش پر بیٹھنا پڑا۔ وہ کافی دیر ڈاکٹر صاحب سے گفتگو کرتے رہے۔ ان کے رخصت ہونے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کہا: ” میں ان کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہوں اور وہ انھیں سمجھ سکتے ہیں۔مجھے ان سے تبادلۂ خیال کرنا آسان لگا کیوں کہ وہ عمیق فہم کے حامل ہیں ۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردیوں کے موسم میں شام کے وقت کوئلوں والی انگیٹھی ان (علامہ محمد اقبال ) کے کمرے میں رکھ دیا کرتی تھی کیوں کہ آتش دان ٹھیک نہیں تھا۔ گرمیوں کے موسم میں وہ اپنے کمرے کا چھت کا پنکھا استعمال کرتے تھے اور شام کے وقت مالی ان کے کمرے کے سامنے صحن میں چھڑکاؤ کر کے چار پائیاں بچھا دیتا تھا اور ایک پیڈسٹل فین رکھ دیتا تھا۔ یہاں ڈاکٹر صاحب اور ان کے دوست تھوڑی دیر کے لیے بیٹھا کرتے تھے۔ جاوید وہیں گھر کے سامنے والے صحن میں ان کے ساتھ سویا کرتا تھا۔
بانو اور میں گرمیوں میں گھر کے پچھواڑے زنانہ صحن میں سویا کرتی تھیں ۔
بانو نے پہلے چند سال تو کنیرڈ اسکول میں تعلیم حاصل کی اور پھر کوئین میری سکول چلی گئی جہاں وہ میری عدم موجودگی کے عرصے میں زیادہ وقت بورڈنگ ہاؤس میں رہی۔
۱۹۴۸ء آتے آتے جاوید بی ۔اے پاس کر کے لاہور سے فلسفے اور انگریزی میں ایم اے کی دو ڈگریاں لے چکا تھا۔ اس نے فلسفے میں بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اور یونیورسٹی میں اول آکر طلائی تمغہ حاصل کیا تھا۔ وہ بیرون ملک جا کر مزید تعلیم حاصل کرنے کا خواہش مند تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ جب تک بانو اپنے گھر کی نہیں ہو جاتی جاوید گھر نہ چھوڑے ۔ اس وقت تک بانو اٹھارہ سال کی ہو گئی تھی اور اس کے لیے کئی رشتے آچکے تھے۔ متفقہ طور پر میاں صلاح الدین کا چناؤ کیا گیا ۔ چودھری محمد حسین سوچتے تھے چونکہ میاں نظام الدین اور میاں امیر الدین دونوں ڈاکٹر صاحب کے دوست تھے اس لیے انھوں نے اس شادی کی منظوری دے دی۔ وہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے گھرانے کا بہت احترام بھی کرتے تھے۔ بانو کی شادی ۱۹۴۸ء میں میاں صلاح الدین کے ساتھ ہوئی۔چودھری محمد حسین اور حکیم طاہر الدین نے شادی کے تمام انتظامات کیے۔ اس شادی میں بہت سارے لوگوں نے شرکت کی۔ وہ ایک نہایت پر رونق تقریب تھی۔خدا کے کرم سے بانو کی ازدواجی زندگی نہایت پُر مسرت تھی۔ یوں چودھری صاحب کا انتخاب درست ثابت ہوا تھا۔
جب جاوید کیمبرج سے پی ایچ ڈی اور بار (Bar) کی ڈگریاں حاصل کر کے ۱۹۵۶ء میں واپس آیا تو اس کی خواہش تھی کہ اتنے عرصے دور رہنے کے بعد منیرہ اس کے ساتھ رہے۔ چنانچہ اس نے اسے اپنے شوہر اور بچوں سمیت جاوید منزل میں رہنے کے لیے بلا لیا۔ میاں صلی نے خوشی خوشی اس بلاوے کو قبول کیا اور ہم سب دوبارہ پرانے گھر میں یکجا ہو گئے۔جہاں منیرہ کے سب سے چھوٹے بیٹے نے جنم لیا۔ اس نے اپنے والد کے نام پر اس کا نام اقبال رکھا۔ وہ اس بات پر بہت خوش تھی کہ وہ اس کے والد کے گھر میں پیدا ہوا ہے۔ہم ۱۹۶۲ء میں منیرہ اور اس کے گھرانے کے گلبرگ میں اپنے نئے گھر میں منتقل ہونے تک ہنسی خوشی اکٹھے رہے۔ اس کے بعد جاوید اور میں پھر سے گھر میں اکیلے رہ گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقول بانو منیرا”جاوید منزل کے انتظام میں ایک اہم تبدیلی آئی۔ آنٹی ڈورس کچھ تو مجھے ڈسپلن نہ کر سکنے کی وجہ سے نالاں تھیں۔ اسی دوران علی گڑھ سے ان کی بہن نے اطلاع دی کہ کوئی پروفیسر ان سے شادی کرنے کا خواہش مند ہے۔ وہ پروفیسر کو دیکھنے کی غرض سے چند دنوں کے لیے علی گڑھ گئیں اور پھر منیرہ کو خط میں بتایا کہ پروفیسر سے شادی کرنے کے بعد وہ شاید لکھنو چلی گئی ہیں۔ چودھری محمد حسین نے بڑی کوشش کی کہ منیرہ کے لیے کسی اور مسلم یا غیر مسلم خاتون اتالیق کا بندو بست کر دیا جائے مگر جب کوئی مناسب خاتون نہ مل سکی تو منیرہ کوئین میری کالج کے ہوسٹل میں منتقل ہو گئیں۔ میں یا بھائی مختار انھیں ملنے کے لیے دوسرے تیسرے روز جایا کرتے اور جس شے کی انھیں ضرورت ہوتی ، مہیا کر دی جاتی ۔ وہ تقریباً سال دو سال ہوسٹل ہی میں مقیم رہیں اور دسویں جماعت تک پہنچ گئیں۔ لیکن ہوسٹل میں رہنا انھیں پسند نہ تھا۔ کالج گراؤنڈ کے ایک طرف کسی بزرگ کا مزار تھا۔ منیرہ قریب سے گزرتیں تو دعا کیا کرتیں کہ بزرگو! مجھے اپنے گھر بھیجو، میں یہاں رہنا نہیں چاہتی۔ منیرہ کی دعا قبول ہوئی۔ آنٹی ڈورس نے اپنے شوہر سے طلاق لی اور واپس ہمارے پاس آگئیں۔ آنٹی ڈورس نے دوبار شادی کا تجربہ کیا لیکن کامیاب ازدواجی زندگی گزارنا ان کے نصیب میں نہ تھا۔
(صوفیانہ نظر سے “بزرگ کا مزار” روحانی فیض کا مرکز ہوتا ہے۔ دعا دراصل خدا ہی سے قبول ہوتی ہے، لیکن اولیاء کی قربت انسان کے دل میں توجہ اور یکسوئی پیدا کرتی ہے۔منیرہ کی دعا دراصل ایک روحانی کشش کا اظہار ہے جو اسے اپنے مانوس ماحول کی طرف واپس لے آئی۔
۔ دعا بطورِ رمز “معصومیت کی پکار”عارفانہ طور پر دیکھا جائے تو ایک معصوم دل کی دعا “نفسِ مطمئنہ” کی جھلک ہے۔ بچپن اور معصومیت میں جو صداقت اور اخلاص ہے، وہ اولیاء اور صوفیاء کے نزدیک “قبولیت” کی سب سے بڑی شرط ہے۔ منیرہ کی دعا اسی معصومانہ اخلاص کا عکس ہے۔
“بزرگو! مجھے اپنے گھر بھیجو، میں یہاں رہنا نہیں چاہتی۔”یہ ایک سادہ سا جملہ ہے، مگر اس کے اندر عارفانہ اور نفسیاتی معنویت چھپی ہوئی ہے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“20 اپریل 1938 کی رات آنٹی ڈوریس احمد بانو منیرا کو علامہ کی خوابگاہ میں لے آئیں ۔منیرا اپنے والد گرامی کے بستر میں گھس گئیں اور ان کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتیں کرنے لگیں۔ رات کے قریبا 10 بجے آنٹی ڈورس احمد منیرا کو لے جانا چاہا ،کیونکہ یہ ان کے سونے کا وقت تھا، مگر وہ بولیں کی آنٹی ڈورس تھوڑی دیر اور –والد نے مسکراتے ہوئے آنٹی ڈورس سے انگریزی میں کہا کہ اس کی چھٹی حس اسے آگاہ کر رہی ہے کہ آج باپ کے ساتھ اس کی آخری ملاقات ہے ۔اس لیے اسے کچھ دیر یہیں رہنے دیں۔بالاخر منیرا والد کے بستر میں سو گئیں اور آنٹی ڈورس انھیں اپنی گود میں اٹھا کر اندر لے گئیں۔”
(یہ واقعہ، جو 20 اپریل 1938 کی رات یعنی علامہ اقبال کے وصال سے ایک دن قبل پیش آیا، بظاہر ایک گھریلو اور جذباتی منظر ہے لیکن اگر ہم اسے عارفانہ و عالمانہ زاویے سے دیکھیں تو اس میں بڑی معنویت پوشیدہ ہے۔منیرا بانو کا والد کے بستر میں گھس کر چھوٹی چھوٹی باتیں کرنا محض معصومانہ محبت نہیں بلکہ ایک باطنی کشش کی علامت ہے۔ صوفیانہ نقطۂ نظر سے روحوں کے درمیان ایک لطیف ربط ہوتا ہے۔ بعض اوقات اولاد کو، خاص طور پر چھوٹے بچوں کو، والدین کی روحانی کیفیت کا براہِ راست شعور مل جاتا ہے۔ بانو منیرا دراصل اپنے والد کی رخصتی کے قریب آنے والے نورانی لمحوں کو غیر شعوری طور پر محسوس کر رہی تھیں اور اس لیے وہ ان سے جدا ہونا نہیں چاہتی تھیں۔”آج باب کے ساتھ آخری رات ہے”یہ جملہ اقبال کی فراستِ ایمانی اور بصیرتِ روحانی کی دلیل ہے۔ صوفیاء کے نزدیک “چھٹی حس” دراصل کشف یا الہامِ قلبی کی ایک صورت ہے۔ اقبال نے اپنی زندگی کے آخری لمحوں کے قریب ہونے کو شعوری طور پر محسوس کر لیا تھا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں سالک کو اپنے “سفرِ آخرت” کا علم عطا کیا جاتا ہے۔منیرا بانو کا والد کے پہلو میں سو جانا، عارفانہ زبان میں فنا فی الوالد کی ایک رمزی صورت ہے۔ جس طرح سالک، محبوبِ حقیقی کے قرب میں ساکن ہو کر فنا پاتا ہے، اسی طرح بیٹی باپ کے ساتھ آخری سکون حاصل کر رہی تھی۔ یہ نیند دراصل “اطمینانِ قلب” اور “روحانی اعتماد” کا اظہار تھی، گویا باپ کے ساتھ ہونے سے خوف و ہراس مٹ گیا۔ڈوریس احمد نے اقبال کے آخری دنوں میں ان کی خدمت اور اہلِ خانہ کی مدد میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس رات بھی وہ ایک “امین” کی طرح بانو منیرا کو آغوش میں اٹھا کر اندر لے گئیں۔ عارفانہ نظر سے دیکھا جائے تو وہ گویا روح کے سفر کی نگران کی حیثیت رکھتی ہیں، کہ بچی کو بظاہر جسمانی خواب گاہ تک لے جا رہی تھیں مگر اصل میں اس کو ایک نئی روحانی یاد کے ساتھ چھوڑ رہی تھیں۔یہ واقعہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ:اہلِ عشق و عرفان (جیسے علامہ اقبال) کو اپنی رخصتی کا علم ہو جاتا ہے۔
اولاد کا والدین سے قلبی تعلق محض جسمانی نہیں بلکہ روحانی اور ازلی ہے۔موت عارف کے لیے ہولناک مرحلہ نہیں بلکہ محبوبِ حقیقی سے ملاقات ہے، اور اہلِ خانہ کے ساتھ آخری لمحات محبت، سکون اور قربت سے لبریز ہوتے ہیں۔
یہ ملاقات گویا ایک “وصالِ مجازی” کی علامت ہے جو “وصالِ حقیقی” کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ اقبال نے اپنی زندگی کے آخری دن اپنی بیٹی کو اپنے قرب میں سلا کر، اپنی روحانی میراث اور محبت کا حصہ اس کے دل میں منتقل کر دیا۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“جب والدِ محترم (علامہ اقبالؒ) کی وفات ہوئی تو ہمیں اس کی خبر سب سے پہلے علی بخش نے دی، کیوں کہ اس وقت وہی ان کے ساتھ تھے۔ علی بخش نے سب کو جگا دیا۔ میں اُس وقت سو رہی تھی اور گورنر ڈورس احمد کے پاس تھی۔ اچانک بلند آواز میں رونے اور شور کی کیفیت سنائی دینے لگی۔ اس غیر معمولی شور نے مجھے چونکا دیا اور میں فوراً جاگ اٹھی۔ ابتدا میں تو مجھے کچھ سمجھ ہی نہ آیا کہ یہ کیا ہوا ہے۔جاوید بھائی بھی میرے ساتھ تھے۔ ہم دونوں بہن بھائی گھبراہٹ میں اُٹھ بیٹھے۔ والد صاحب کہ ہمشیرگاں بھی اُس وقت لاہور میں موجود تھیں، کیوں کہ ابا جان علیل تھے۔ خبر ملتے ہی وہ بھی ہمارے ساتھ والد کے پاس پہنچ گئیں۔ جب ہم سب ان کے قریب پہنچے تو والد صاحب کی روح پرواز کر چکی تھی۔ یہ نہیں کہ ہمیں پہلے سے ان کی شدید بیماری کا اندازہ تھا، یا یہ توقع تھی کہ ابھی ان کا وقتِ آخر ہے۔ ہمیں تو حقیقی طور پر اسی لمحے معلوم ہوا کہ والد محترم دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔پھر میں اُن کے پاس پہنچی۔ مجھے یاد نہیں کہ اُس وقت میں نے کیا کیا، لیکن یوں لگ رہا تھا جیسے سمجھ ہی نہ آ رہا ہو کہ سب لوگ کیوں رو رہے ہیں۔ اُس وقت تک کافی لوگ جمع ہو چکے تھے، ہمارے رشتے دار بھی وہاں موجود تھے۔ کچھ تو پہلے ہی ہمارے گھر مقیم تھے، جیسے میری پھوپھیاں اور اُن کے خاوند وغیرہ، جو بیماری کی وجہ سے ابا جان کی خبرگیری کے لیے آئے ہوئے تھے۔
مجھے بس اتنا یاد ہے کہ جب جنازہ اُٹھایا جا رہا تھا اور لوگ لے جا رہے تھے تو ہر طرف رونے اور چیخ و پکار کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ مجھے وہ منظر ہلکا سا یاد ہے۔ میں تو عموماً ابا جان کے پاس ہی سو جاتی تھی، اُن کا بازو میرا تکیہ ہوتا تھا اور میں اُن کے پہلو میں لیٹتی تھی۔ پھر وہ مجھے اُٹھا کر اندر آنٹی ڈورس کے پاس چھوڑ آتے تھے۔
بقول ڈوریس احمد “ڈاکٹر صاحب کو غسل دینے اور کفن پہنانے کے بعد ان کی چار پائی کو کمرے کے درمیان میں رکھ دیا گیا۔ علی بخش مجھے کہنے آیا کہ جاویداور بانو کو باقی لوگوں کے آنے سے پہلے ان کا آخری دیدار کروا دوں۔میں ان دونوں کو کمرے میں لے گئی لیکن مجھے محسوس ہوا کہ ڈاکٹر صاحب وہاں موجود نہیں ہیں۔ کمرے میں پھیلی کافور کی تیز میک کے ساتھ انھیں کفن میں لپٹے دیکھنا بہت عجیب لگا۔ بچے بھی مہر بہ لب تھے۔ اس دن کے بعد سے میں کافور کی مہک سونگھ نہیں سکتی۔اس کے بعد میں بچوں کو لے گئی اور کمرا ڈاکٹر صاحب کے دوستوں،رشتہ داروں اور مداحوں سے بھر گیا۔فطری بات ہے، بانو سخت الم زدہ تھی اور زار و قطار رو رہی تھی۔ جب اس کی سہیلی جمیلہ اپنی والدہ کے ساتھ آئی تو میں نے دونوں لڑکیوں کو کھیلنے کے لیے باہر باغ میں بھیج دیا۔ چند رشتہ داروں نے اس بات پر کڑی نکتہ چینی کی اور اصرار کیا کہ بانو کو اندر بیٹھنا اور رونا چاہیے تا کہ اس کے والد کو جنت میں سکون ملے ۔ میں نے اسے بلانے سے سختی سے انکار کر دیا کیوں کہ مجھے علم تھا کہ اگر اب وہ مزید روئے گئی تو بیمار پڑ جائے گی۔”
“مجھے یہ واقعہ آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔ میں ابا جی کے پاس لیٹی ہوئی تھی کہ اچانک علی بخش اندر آیا اور کہنے لگا: ’آپ کے والد کے کچھ دوست ملنے کے لیے آرہے ہیں، آپ ذرا باہر آجائیں۔‘ میں نے انکار کر دیا اور ضد کی کہ میں کہیں نہیں جاؤں گی، مجھے تو ابا جی کے پاس ہی رہنا ہے۔ ابا جان نے فوراً فرمایا: ’نہیں، اسے مت اٹھاؤ، یہ جیسے ہے ایسے ہی رہنے دو۔‘ چنانچہ میں وہیں رہی۔تھوڑی دیر بعد علی بخش پنڈت نہرو صاحب کو اندر لے آیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ نہایت سادہ لباس میں تھے؛ سفید کرتا، واسکٹ اور سر پر پیشاوری ٹوپی پہنے ہوئے۔ کمرے میں دو کرسیاں بچھی ہوئی تھیں مگر وہ زمین پر بیٹھ گئے۔ مجھے یہ بات عجیب لگی کہ کرسیاں موجود ہونے کے باوجود وہ زمین پر کیوں بیٹھ گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ابا جی کی عزت کے پیشِ نظر زمین پر بیٹھے تھے۔اس موقع پر میاں افتخار الدین اور ان کی بیگم بھی ساتھ تھے۔ بیگم افتخار الدین مجھے شفقت سے ’باجی‘ (ازراہ محبت)کہہ رہی تھیں۔ ان کے ساتھ اور بھی کچھ لوگ تھے۔ وہ سب بیٹھ گئے اور ابا جی سے گفتگو ہونے لگی۔ابا جی حسبِ معمول چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ انھوں نے سادہ سی قمیض اور دھوتی پہن رکھی تھی، وہی لباس جو ہمیشہ پہنتے تھے۔ آرام سے لیٹے رہے، اٹھے نہیں۔ مجھے یاد ہے جب انہوں نے پنڈت نہرو سے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو میں نے اپنے والد کے بازوؤں کو دیکھا۔ وہ اتنے کمزور لگ رہے تھے کہ آج تک وہ منظر میرے دل کو دکھ دیتا ہے۔وہ سب دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے، مگر ان کی گفتگو میری سمجھ سے بالاتر تھی۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ کاش اُس وقت میں بڑی ہوتی تو کچھ سمجھ پاتی کہ وہ کیا گفتگو تھی۔ کچھ دیر بعد پنڈت نہرو رخصت ہو گئے۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چودھری محمد حسین اور میاں اسلم میں گہری دوستی تھی۔ دونوں کی شخصیت اور انداز ایک دوسرے سے خاصی مشابہت رکھتے تھے۔ میاں اسلم کی دیرینہ خواہش تھی کہ منیرہ بانو کی شادی میاں امیر الدین کے گھر ہو۔ چنانچہ جب رشتہ طے کرنے کی بات آئی تو وہی پیش پیش رہے۔شادی نہایت سادگی سے انجام پائی۔ اُس زمانے میں تقریبات میں نمود و نمائش کا رواج نہ تھا۔ بارات بھی قلیل افراد پر مشتمل تھی اور رخصتی جاوید منزل ہی سے ہوئی۔ شادی کے فوراً بعد بھائی جاوید ولایت چلے گئے۔ وہ دراصل دو برس قبل ہی جانا چاہتے تھے مگر بہن کی شادی کے باعث رکے رہے اور یہ فریضہ ادا ہونے کے بعد روانہ ہوئے۔میرے سسرالی خاندان کا سیاسی پس منظر نہایت نمایاں تھا۔ میاں امیر الدین اپنے عہد کے سرگرم سیاست دان تھے، جب کہ شوہر میاں صلاح الدین بھی ایک فعال سیاسی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ تاہم میں نے اپنی طبیعت کے باعث خود کو ہمیشہ سیاست اور عوامی زندگی سے الگ رکھا۔ میری زندگی کی سمت زیادہ تر گھریلو اور نجی دائرے تک محدود رہی۔
…………………………………….
بقول ڈورس احمد بانو منیرا اقبال کی شادی 1948 میں ہوئی۔لیکن
بقول ڈاکٹر جاوید اقبال بانو منیرا اقبال کی شادی مارچ 1949 میں میاں امیر الدین رئیس اعظم لاہور کے صاحبزادے میاں صلاح الدین کے ساتھ ہوئی۔ بانو منیرا اقبال کے بطن سے تین بچے پیدا ہوئے ۔جن میں میاں اسد صلاح الدین ،میاں یوسف صلاح الدین اور میاں اقبال صلاح الدین شامل ہیں ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت علامہ نے میاں نظام الدین کے نام ایک خط منیرا کی تربیت کے بارے میں لکھا کہ اس کی پرورش خالص مذہبی اور اسلامی انداز میں کی جائے۔بانو منیرا اقبال سے حضرت علامہ کی پدرانہ شفقت کی انتہا کے بارے میں بیگم محمودہ ریاض صاحبہ ایک واقعہ نقل کرتی ہیں کہ جب بھی حضرت علامہ لیٹتے بانو کو اپنے سینے پر بٹھا لیتے اور بانو شوخی سے کودنے لگتی وہ انھیں بے حد پیار کرتے ۔علامہ اپنی بیٹی کو اپنے پاس سلا لیتے اور جب تک کہ بانو سو نہ جاتی اسے سینے سے لگائے رکھتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔…………..
جو میرے ابا جان قرآن پاک پڑھا کرتے تھے وہ قرآن شریف میں اپنے سرہانے لے کر سوتی تھی کیونکہ مجھے بڑا ڈر لگتا تھا جب والد چلے گئے اور والدہ بھی نہیں تھی تو صرف قرآن شریف ہی وہ واحد سہارا تھا جسے میں ہمیشہ اپنے سرہانے رکھ کر سوتی تھی اور پھر آرام سے سو جاتی تھی جس سےمجھے بہت زیادہ سکون ملتا تھا۔وہ قرآن شریف اب جسٹس اے رحمان کی فیملی کے پاس موجود ہے ۔
………………. ………………..
“میری محترمہ فاطمہ جناح سے ملاقات ہوئی۔ وہ جاوید منزل تشریف لائی تھیں، جہاں ہم سب گھر کے افراد موجود تھے۔ اس موقع پر ایک تصویر بھی لی گئی تھی جس میں محترمہ جناح، میری پھوپھیاں اور ہم سب صوفے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔یہ ملاقات پاکستان بننے کے بعد کی ہے۔ چونکہ ان کے آنے کی خبر پھیل گئی تھی، اس لیے جو لوگ پہلے نہیں آنا چاہتے تھے، وہ بھی ان سے ملنے کے شوق میں پہنچ گئے۔ اسی وجہ سے محفل میں کافی رش تھا اور اتنی خاص گفتگو نہیں ہو سکی۔ البتہ اُن کی شخصیت کی وقار اور سادہ مزاجی نے سب کو بہت متاثر کیا.
…………………………………..
ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایک مصاحبے میں بانوئے ملت، دختر ِحکیم الاُمت محترمہ منیرہ بانو سے پوچھا کہ آپ نے کبھی ابا کو اپنے خواب میں دیکھا تو فرمانے لگیں کہ بہت مدت ہوئی کہ میں نے انھیں تب دیکھا جب میرا بیٹا اقبال دس برس کا تھا میں نے دیکھا کہ ایک سبز رنگ کا بہت بڑا گنبد سا ہے جس کے دروازے پر سیاہ فام حبشی کھڑا پہرا دے رہا ہے میں اُسے کہتی ہوں کہ میں نے اپنے باپ سے ملنا ہے اور مجھے معلوم ہے وہ یہاں موجود ہیں، میرے ساتھ میرا دس سالہ بیٹا اقبال بھی ہے، حبشی پہرہ دار ہمیں ساتھ لے کر اندر داخل ہوتا ہےمیں دیکھتی ہوں کہ ابا جی سفید کپڑے پہنے ایک سادہ سی چار پائی پر لیٹے ہیں، بستر بھی سفید رنگ کا ہے، کمرا بہت بڑا اور روشن ہے مگر بغیر کسی سازو سامان کے، میں اقبال سمیت اُن کے قریب پہنچتی ہوں تو ابا جی میرا ہاتھ تھام کر چومتے ہیں، میں بھی جھک کر اُن کا ہاتھ چوم لیتی ہوں اور اقبال کوآگے بڑھاتے ہوئے کہتی ہوں: “ابا جی ! میں اپنے بیٹے اقبال کو ساتھ لائی ہوں”۔ وہ بڑی شفقت سے اقبال کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں ۔ پھر اسے اپنے پاس بٹھا لیتے ہیں، میں اُن سے اُوٹ پٹانگ سا سوال پوچھتی ہوں:” ابا جی ! ہم جو دعائیں مانگتے ہیں ، اُن کا اثر ہوتا ہے یا نہیں؟” وہ مسکراتے ہوئے فرماتے ہیں: “بیٹی! عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی”۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
(سبز گنبد: یہ حضور ﷺ کی بارگاہ کی علامت ہے، جہاں سبز گنبد مدینہ منورہ کی روحانی فضا اور قبولیتِ دعا کا مقام ہے۔سبز گنبد کی موجودگی اقبال کی فکر کو نبی اکرم ﷺ کے در سے جڑا ہوا ظاہر کرتی ہے، گویا فکرِ اقبال کا سرچشمہ بھی فیضانِ نبوی ہے۔
حبشی پہریدار: یہ دروازۂ حرم کی حفاظت اور روحانی دربان کا استعارہ ہے۔ گویا ہر کوئی بغیر اجازت و نصیب کے اس بارگاہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔
علامہ اقبال سفید لباس میں تخت پر: سفید لباس صفائیِ باطن، نورانیت اور آخرت میں سکون کا نشان ہے۔ تخت سادہ ہے، جو اقبال کی فقرانہ زندگی اور بے تکلفی کا آئینہ ہے۔
بیٹے اقبال کا سر پر ہاتھ پھیرنا: یہ علامہ کی روحانی وراثت اور اپنی نسل و امت کو فکرِ خودی منتقل کرنے کی علامت ہے۔دستِ شفقت کا مطلب یہ ہے کہ فکرِ اقبال محض ایک ماضی کی یاد نہیں بلکہ ایک زندہ وراثت ہے جو آنے والی نسل کو منتقل ہو رہی ہے۔اقبال کے بیٹے اقبال پر دستِ شفقت کایہ پہلو خواب کا سب سے اہم اور پُر رمز حصہ ہے۔بچے پر ہاتھ پھیرنا شفقت، تسلسل اور وراثتِ روحانی کی علامت ہے۔اقبال کے ہاتھ کا بیٹے اقبال کے سر پر ہونا گویا اس بات کی نشانی ہے کہ “فکرِ اقبال” اور اس کے روحانی نقوش نئی نسل کو منتقل ہوں گے۔یہاں بچہ صرف بانو منیرہ بی بی کا بیٹا نہیں بلکہ “مستقبل کی نسلِ نو” کی علامت ہے، جسے اقبال اپنی فکر کی وراثت سونپ رہے ہیں۔تصوف میں سر پر ہاتھ پھیرنا “اجازت و نسبت” دینے کے مترادف ہے، گویا اقبال اپنے افکار و خواب کی امانت آئندہ نسل کے سپرد کر رہے ہیں۔
محترمہ بانو منیرا اقبال کا سوال “کیا دعائیں اثر رکھتی ہیں؟”: یہ انسانی دل کا ازلی سوال ہے کہ دعا کی حقیقت کیا ہے؟علامہ کا جواب: “بیٹی! عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی.”
اقبال کے نزدیک دعا محض الفاظ نہیں بلکہ حرکت اور عمل کے ساتھ جڑنے والی کیفیت ہے۔ خواب میں جب منیرہ بی بی نے دعا کے اثر کے بارے میں پوچھا تو اقبال نے براہِ راست یہ یاد دلایا کہ:

  1. زندگی کی تقدیر دعا کے ساتھ عمل سے جڑتی ہے
    دعا ایک روحانی توانائی ہے، مگر اگر اس کے ساتھ انسان کی سعی و محنت نہ ہو تو وہ بےاثر ہو جاتی ہے۔اس لیے اقبال نے اپنی بیٹی کو بتایا کہ زندگی کے نتائج صرف دعا سے نہیں بلکہ عملِ صالح سے طے ہوتے ہیں۔
  2. جنت و جہنم کا تعلق انسان کے عمل سے ہے
    عارفانہ طور پر جنت و جہنم خارجی جگہیں ہی نہیں بلکہ انسان کے باطن کی کیفیات بھی ہیں۔
    نیک اعمال دل کو نورانی کرتے ہیں تو انسان کے اندر جنت بستی ہے۔ برے اعمال نفس کو تاریک کرتے ہیں تو انسان کا اندر جہنم بن جاتا ہے۔
    اقبال ہمیشہ امت کو “خودی” یعنی عمل، ارادہ اور کردار کی طاقت پر زور دیتے ہیں۔خواب میں بھی یہی پیغام ان کی بیٹی کو دیا گیا کہ صرف دعا پر تکیہ نہ کرو، بلکہ اپنے کردار، محنت، اور عمل سے اپنی تقدیر تراشو۔بیٹے اقبال کے سر پر ہاتھ پھیرنا دراصل یہ علامت ہے کہ اگلی نسل کو بھی یہی پیغام ملے: محض خواب یا دعا کافی نہیں، اصل چیز عملی جدوجہد ہے۔منیرہ بی بی اقبال کے اس خواب میں علامہ اقبال نے اپنی فکر کا سب سے بنیادی نکتہ دہرا دیا:دعا روحانی تڑپ ہے مگر اس کا حقیقی اثر تب ہے جب انسان اپنی زندگی کو عملی جدوجہد، اخلاقی کردار، اور بلند مقاصد کے ساتھ باندھ لے۔انسان اپنی جنت اور جہنم کا معمار خود ہے۔یوں منیرہ بی بی کو یہ خواب گویا ایک وراثتی نصیحت تھی کہ ان کی ذاتی اور خاندانی زندگی، بلکہ پوری امت کی نجات، اسی اصول پر ہے کہ:
    “عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی
    یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے”)
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ڈاکٹر حسن رضا اقبالی