جائے استاد خالیست

یہ تحریر 3117 مرتبہ دیکھی گئی

(شعبہ اردو،لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی،لاہور کی استاد ڈاکٹر تقدیس زہرا سے ایک مکالمہ)

تقدیس زہرا۔۔۔ ڈاکٹر تقدیس زہرا ہلکے رنگوں کے شلوار قمیص میں ملبوس،کانوں میں ہم رنگ ٹاپس اکثر بناوٹ کی کسی پیچیدگی سے عاری سادہ سے ایک نگین والے،بالوں کو سمیٹنے کے لیے بھی کوئی ملتا جلتا رنگ، سفید چپل،ڈائری میں نقشے،ہاتھ میں گھڑی یا ایک آدھ چوڑی، خوش قامت،پروقار، گفتگو کے انداز میں کچھ تفحص، بہت فیاض،دلنشیں آواز جس میں طنزکی آمیزش تونہیں ہوتی مگر اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے والے ایک نیم کش کا لطف برقرار رہتا۔کبھی خبر لینے کے موڈ میں ہوتیں تو ایک آدھ کو نہیں پوری کلاس کو مخاطب کیا جاتا:

”ایسی کیا اسائنمنٹ دے دی ہے آپ کوکہ ساری کلاس بولائی پھرتی ہے؟ لائبریری کا کیا نقشہ بنا رکھا ہے۔ ایک بیٹھا ہے، ایک لیٹا ہے، ایک پاس کھڑا ہے۔ آپ لوگ بی ایس کرکے آئے ہیں نا؟”

واقعی ان دنوں شاعری سے شغف رکھنے والے دو ایک طلبا کو چھوڑ کر ساری کلاس کا یہی حال تھا۔

تقدیس زہراشاید پنجاب سے ہیں لیکن مجھے ان کودیکھ کر بیلے کے پھولوں، دالان، تخت اور پاندان کا خیال آتا ہے۔وہ شاید خوشبو نہیں لگاتیں، ہم تک کبھی نہیں پہنچی لیکن خس کے عطر کی بھینی بھینی خوشبو ان کی شخصیت کے ساتھ جچے گی۔کیا ہو اگر اس طویل کاریڈار میں وہ شوخ رنگ لباس پہنے، پنسل ہیل ٹکٹکاتی اور نسبتاََ سنبھلی ہوئی چال سے چلی آرہی ہوں۔یا براڈ ہیل کی دھمک پیدا کرتی ہوئی ضرب زمین کو لرزا دے؟ در و دیوار ہم گوش می دارد۔ سماعتوں کو اچھا نہیں لگے گا۔ وہ پورا قدم زمین پر جمانے والوں میں سے ہیں۔وہ خوشبو کی طرح بے آواز گزرتی ہیں۔ تمام تر سنجیدگی او ر متانت کے باوجود مجھے ہمیشہ لگا کہ ان کے اندر کہیں شرارت پنپ رہی ہے،وہ ہنسا اور ہنسا دینا چاہتی ہیں۔میں نے جب انہیں دیکھا وہ درمیانی عمر کی جانب بڑھ رہی تھیں لیکن میرا خیال ا ن کے پچپن کی طرف گیا۔وہ ضرور کبھی گلک میں پرکار گھسا کر پیسے کھینچتی ہوئی ایک بچی رہی ہوں گی۔ایک بچی ان کی آنکھوں کی اداسی سے اور مسکراہٹ کو حدوں میں رکھتے لبوں کے گوشوں سے جھانکتی اور کھلکھلاتی ہے۔

وہ بغیر نقشوں کے پڑھا نہیں سکتیں خاص کر تاریخ سے متعلق سب پرچے۔میرے علم کے مطابق انھوں نے کبھی طلبا کو کلاس سے کسی کام کے لیے باہر نہیں بھیجا۔وقت اور وعدے کی پابند ہیں۔کتابوں کے فقط نام بتا دینے پر انھوں نے کبھی اکتفا نہیں کیا تھا۔وہ سب کتابیں کمرہ ء جماعت میں اٹھا لاتیں اور ایک ایک طالب علم کے ہاتھ میں دیتیں۔ایک دن پنجاب کے آثا ر قدیمہ کلاس میں گردش کر رہی تھی۔ میں یہ کتاب پڑھ چکی تھی۔مختصر سی ایک کتاب جو خاص مشکل نہ تھی۔سو میں نے اسے دیکھے بغیربرابر کی کرسی پر دھر دیا۔ ”اسے کھول کر دیکھئے۔” میں نے کتاب کھولی۔یہ ایک پرانا ایڈیشن تھا۔ہر مقام،تاریخی عمارت اور آثار کے برابر چسپاں اس کی تصاویر،نقشے اور ہاتھ سے لکھے نوٹس، اخبارات کے تراشے،انٹرنیٹ کی فراوانیوں سے پہلے کی گئی محنت۔

چند باتیں شعبہ ء اردو لاہور کالج برائے خواتین کی ہر دلعزیز استاد ڈاکٹر تقدیس زہرا سے قارئین کی نذر:

 سوال:آپ کا بچپن اندرون موچی گیٹ میں گزرا۔ بچپن کی وہ کونسی یادیں ہیں جو آج بھی ساتھ ہیں۔

جواب: بچپن کی سبھی یادیں ساتھ ہیں۔والدین، بھائی، ماموں، نانی، پھپھو، سب کی، سکول کی بھی سب یادیں، مجھے اردو اور پاکستان سے محبت ورثے میں ملی ہے۔والدین خود اساتذہ رہے سو ایک طرح سے تعلیم و تربیت میں ان کا مرکزی کردار رہا، سکول کے اساتذہ میں سے مسز فہمیدہ اور مس زیدی نے اردو کی محبت دل میں بٹھا دی، انگلش کی استاد نے سکھایا کہ استاد کا  conceptبالکل واضح ہونا چاہیے۔

سوال: آپ نے اندرون لاہور مغل حویلی میں پرورش پائی،مغل حویلی کے اندر اور باہر کی دنیا کیا بہت مختلف تھی؟

جواب: جی میں نے مغل حویلی میں آنکھ کھولی۔ پرانی لیکن خوبصورت حویلی تھی۔ اب اس جگہ نیا مکان بن گیا ہے۔مکان ہی کہوں گی حویلی تو گر گئی۔لیکن مجھے اب بھی کھلے اور پرانے گھر پسند ہیں۔ میں واقعی اب بھی اپنے اندر موتیے کی خوشبو اور دالان میں رکھا تخت اور پاندان لیے پھرتی ہوں،آپ نے اولڈ ہاسٹل تو دیکھا ہوگا۔ بس! گھر ایسے ہی ہونے چاہئیں۔

سوال:کل اور آج کی تہذیب میں کچھ فرق دیکھتی ہیں؟ کیا انسان رو بہ زوال ہے؟

جواب:جی اس وقت کی اور اب کی تہذیب میں زمین آسمان کا فرق ہے، اندرون شہر میں اور اپنے گھرانے میں تو میں نے خاص طور پر تہذیب اور ادب کاچلن دیکھا، گھر میں یا باہر بدتمیزی کوئی برداشت نہیں کرتا تھا، بزرگوں کا ادب زندگی کا لازمہ تھا، اب میں دیکھتی ہوں کہ بچے کسی بڑے کی آمد پر پانی تو کیا پوچھیں اٹھ کے اپنی جگہ بھی نہیں دیتے۔

 کتابیں اور ان سے محبت ورثے میں پائی، ”زیب النسا ”اور” حور ”رسالے آتے تھے اور مجھے رسالہ” حور” بہت پسند تھا، ڈائجسٹ ممنوع تھے، کبھی گھر میں نہیں آئے، بچپن سے میر، غالب، میر انیس، اسماعیل میرٹھی کو پڑھا، ہائی کلاسز میں حالی، اکبر،اقبال اور حفیظ جالندھری کو پڑھا، پریم چند کے چند افسانے بہت پسند تھے۔

گھر کے اندر بزرگ اور باہر استاد سکھاتے تھے سو فرق نہیں تھا، تہذیب میں گندھے لوگ تھے۔(وقفے کے بعد) عبیرہ! ہم وہ آخری جنریشن ہیں جو بزرگوں کی بات مانتی تھی اور وہ پہلی جنریشن ہیں جو بچوں کی مرضی پر چلتی ہے۔تہذیب کا یہ عالم تھا کہ سارا سال جو معیار زیست رہتا تھا اسے محرم اور رمضان میں نہایت سادہ بنا کر نیچے لے آتے تھے، کوئی تام جھام نہیں، مرغن کھانے نہیں، سادگی ہی سادگی!

سوال:آپ اردو زبان و ادب کی تدریس سے وابستہ ہیں۔ کن اداروں میں خدمات انجام دیں۔

جواب: میں نے اب تک گورنمٹ ڈگری کالج برائے خواتین ماڈل ٹاؤن، گوجرانوالہ اور لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی، لاہور میں پڑھایا ہے۔ اب میری ٹرانسفر ہو رہی ہے۔

سوال:ان اداروں میں کون سے مضامین پڑھائے؟

جواب:ملازمت کے پہلے دن سے ایف ایس سی اور ڈگری کلاسز لے رہی ہوں۔۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۶ء تک ایم اے اردو، ۱۹۹۵ء سے تا حال بی اے اور بی ایس، ۲۰۰۹ء سے تاحال ایم ایس اور پی ایچ ڈی کو پڑھا رہی ہوں۔

پی ایچ ڈی کی سطح پر تاریخ ہندوستان اور پاکستان اور لسانیات کے پرچے پڑھائے۔ایم اے اور بی ایس کو تاریخ کے ساتھ تحقیق و تدوین کے پرچے پڑھائے،قدیم شعری اصناف، اسالیب نثر اردو، حالی و اکبرکا خصوصی مطالعہ، اردو نظم کی روایت، تنقید کی مشرقی و مغربی روایت، نقد و انشاء، اردو ادب کی تحریکیں،لسانیات، افسانوی نثر اور بہت سے پرچے پڑھائے۔ایم فل اور ایم ایس کو ہندی، علم لغت، تقویم، کلاسیکی شعری اصناف، علم بیان و بدیع اور تنقید کی مشرقی و مغربی روایت پڑھائی۔اور بھی کئی مضامین ہیں۔

سوال:شعبے کے انتخاب، اور اپنی خدمات سے مطمئن ہیں؟ کبھی دل میں ملال آیا ہو کہ اچھا ہوتا فلاں پیشہ اختیار کرتی یا اس وقت یہ فیصلہ کیا ہوتاتو بہتر تھا۔

جواب:

کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

تدریس کے شعبے میں اپنی پسند اور شوق سے آئی ہوں۔یہ نہ کرتی تو کچھ اور نہ کرسکتی، یہی میری زندگی ہے۔

سوال: آپ کا طریقہ تدریس بے حد منفرد ہے۔ مجھے یاد آتا ہے ایک بارکلاس کے باہر کچھ طالبات آپ کو گھیرے ہوئے تھیں اور ایک بچی ہتھیلی پر کچھ اجنبی سے پتھر رکھے آپ سے پتھروں کے خواص کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔مختلف شعبوں میں آپ کی دل چسپی کمرہ جماعت میں بھی چھپی نہیں رہتی تھی۔ایک تفحص آپ کی گفتگو میں بھی جھلکتا ہے۔ حیرت کا یہ خزینہ آپ نے کہاں سے پایا اورکیا زندگی اس پرجستجو استاد کے اندر موجود سوالات کی تشفی کرسکی؟

جواب: جواہرات اور پودوں کے بارے میں کافی معلومات ہیں۔ پڑھانے کے طریقے میں میرے لیے آئیڈیل اور ماڈل میرے والدین اور اساتذہ ہیں۔ مختلف چیزوں کے بارے میں جاننے کا تجسس رہتا ہے، سو پڑھتی اور سرچ کرتی رہتی ہوں۔یہ بڑی خوش نصیبی ہے  والدین کے بعد اساتذہ بھی ایسے ملے جنھوں نے ہمارے علم کو بڑھانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا، جو سیکھا انھی سے سیکھا۔یہی رول ماڈل ہیں، یہی اساتذہ میرا حوالہ اور ریفرنس ہیں۔

سوال:مجھے پوچھنا پڑے گا کہ آپ نے کن اساتذہ سے کسب فیض کیا؟

جواب:اساتذہ میں مسز فہمیدہ، مس زیدی، مسز ارجمند، مس کوثر، کالج میں مسز نسیمہ اکرم، مسز ناہید قاسمی، مس الطاف فاطمہ، مسز شکیلہ رشید، مسز منور اقبال، مسز شمیم ریاض، مس طلعت نایاب، مس یاسمین رودابہ، اور یونیورسٹی میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر سہیل احمد خان، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر فخر الحق نوری،ڈاکٹر اورنگ زیب عالمگیر،ڈاکٹر محمد اسلم(شعبہ ء تاریخ) اور ڈاکٹر مرغوب حسین طاہر ملے۔زندگی میں جو بھی پایا اور آج جو بھی ہوں اپنے والدین اور اساتذہ کی دعاؤں اور محنت کا نتیجہ ہے، ان ہستیوں کی شکل میں اللہ کا مجھ پر خاص کرم رہا الحمدللہ۔(وقفہ کے بعد) جیسے اچھے استاد ملے بس ان کی بھونڈی نقل ہیں ہم کہ جائے استاد خالیست۔کوشش کرتے ہیں ان کی طرح پڑھا سکیں۔قسمت اور اللہ کی مہربانی سے کیا اساتذہ ملے! ان کی کیا کیا بات یاد کی جائے!میرا طریقہ تدریس ان سب کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔

سوال:ادب کی تدریس کے لیے سمسٹر سسٹم کو مناسب خیال کرتی ہیں؟

جواب:نہیں۔سمسٹر کی جگہ سالانہ نظام پسند ہے۔کیونکہ اس میں تفصیل سے بات کی گنجائش ہوتی ہے۔

سوال:اردو سے آپ کی محبت تو ظاہر ہے۔ دیگر کون سی زبانیں جانتی ہیں۔

جواب:میں نے ۱۹۹۸ء میں خانہ فرہنگ ایران سے فارسی میں ڈپلوما کیا۔ ۲۰۰۷ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ہندی زبان میں ڈپلوما کیا۔ پنجاب انسیٹیوٹ آف لینگویج اینڈ کلچر سے۲۰۰۷ء سے گرمکھی کا ڈپلوما کیا۔یہ سب زبانیں لکھنا اور بولنا جانتی ہوں۔۲۰۱۶ء میں پنجاب یونیورسٹی ہی سے سندھی زبان کا ڈپلوما بھی کیا۔اب بنگلہ سیکھنے کا شوق ہے۔ان شاء اللہ

سوال:دوران تدریس غیر نصابی سرگرمیوں کی بھی آپ نے سرپرستی کی باالخصوص لاہور کالج کے مجلہ کرن کی خصوصی اشاعتوں سے متعلق کچھ بتائیے۔

جواب: کالج میں تو بے شمار ڈیوٹیز کیں۔بزم ادب، بزم مشاعرہ، مضمون نویسی نگران، کالج میگزین” کرن” کی سرپرستی سنہ اٹھانوے سے کر رہی ہوں۔دوہزار بارہ میں نوے سالہ ایڈیشن نکالا، اب صدی ایڈیشن پہ کام کررہی تھی جسے دوہزار بائیس میں آنا تھا لیکن تبادلے نے یہ اعزاز چھین لیا، اسی کا افسوس ہے مگر خیر جو اللہ کو منظور، میں نے میگزین کا بہت کام کیا اور اکیلے الحمدللہ۔

سوال:ملک کے طول و عرض کی سیاحت بھی کی۔ کون کون سے علاقے دیکھے؟دیہی یا قصباتی زندگی پسند ہے یا بڑے میٹروپولیٹن شہروں میں رہنا ترجیح ہے؟

جواب: بہت گھومی پھری خاندان اور دوستوں کے ساتھ۔ اسلام آباد، راولپنڈی،ایبٹ آباد،ٹھنڈیانی، بالا کوٹ، ناران، مری، نتھیا گلی، گھوڑا گلی، سوات، کالام، مظفر آباد، کیرن، رتی گلی، وادی نیلم، راولا کوٹ، پتریاٹہ، واہ، ٹیکسلا، جہلم، کھیوڑہ، سون سکیسر، سرگودھا، کلر کہار، خوشاب، شیخوپورہ، گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، ملتان، بہاولپور، اچ شریف، پنجند، علی پور، کراچی، جوہر آباد، کھاریاں۔

قصبے بہت پسند ہیں۔بڑے شہروں کی اپنی زندگی ہے مگر سکون اور قدرت کا حسن قصبوں اور دیہات میں ہے۔

سوال: اندرون لاہور جہاں آنکھ کھولی، وہاں کے تاریخی مقامات بھی دیکھے ہوں گے؟

اندرون لاہور سارے کا سارا تاریخی شہر ہے اس کے بارے دروازے ہیں اور تیرہویں موری، پھر بھی چند نام۔۔مسجد وزیر خان، حویلی آصف جاہ جسے اب چونا منڈی کالج بنا دیا گیا، لال حویلی، مغل حویلی، مبارک حویلی،نثار حویلی، سنہری مسجد، پانی والا تالاب، بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، حضوری باغ، رنجیت سنگھ کی مڑھی(سمادھی اور گردوارا) بازار حکیماں بھاٹی گیٹ، اچی مسیت، مسجد مائی لاڈو، چینیاں والی مسجد، چوک رنگ محل، حویلی میاں خاں، پرانی کوتوالی، نئی کوتوالی(پولیس ہیڈ کوارٹر) محمد حسین آزاد کا گھر، برکت ہال موچی دروازہ، باغ بیرون موچی گیٹ، باغ بیرون دہلی گیٹ، لاہور کے سب دروازے، لال کھوہ، حویلی نونہال سنگھ، شاہ عالم مارکیٹ، مسجد ایاز، مقبرہ قطب الدین ایبک، مقبرہ جہانگیر، مقبرہ نور جہاں، مقبرہ آصف جاہ، شالامار باغ لاہور سے باہر مغل پورہ کے مقبرے۔۔۔بہت کچھ ہے وہاں۔

سوال:پہاڑ، سمندر یا صحرا؟ کن مقامات سے نسبت محسوس کرتی ہیں؟

جواب: پہاڑوں سے بہت انس اور نسبت محسوس ہوتی ہے۔پرسکون جگہیں اچھی لگتی ہیں۔دریاؤں کے کنارے بھی اچھے لگتے ہیں۔

سوال: دل کے سکون کے لیے کیا کرتی ہیں؟

جواب:درود پڑھتی ہوں۔۔۔اور بہت سی دعائیں ہیں۔

سوال:رنگ کون سا پسند ہے اور خوشبو کون سی لگانا پسند کرتی ہیں۔دن پسند ہے یا رات؟

جواب:خوشبو کوئی بھی ہلکی سی، تیز نہ ہو۔Lilly of the valley, Aternity, Aqua Blue, Estee Lauderمیرے بچپن میں ایک خوشبو ہوتی تھی Petra وہ بہت استعمال کی لیکن اب نہیں ملتی۔کیوڑہ، گلاب، رات کی رانی، موتیا اور مروا کی خوشبو بہت پسند ہے۔ وقت سارے پسند ہیں دن رات کے چوبیس گھنٹے، موسم بھی سارے بس برسات کا حبس برداشت نہیں ہوتا۔ رنگ بہت سے ہیں جو پسند ہیں۔ گرمی میں سفید، موتیا رنگ، فیروزی، ہلکا پیازی، ہلکا سیندوری، پیلا، کاسنی، تربوزی اور سردی میں میرون، رائل بلو، نیوی بلو، گہرا گلابی، گہرا سبز، سیاہ۔

سوال:  تخلیقی اظہار کے لیے نظم و نثر میں سے کسے موثر سمجھتی ہیں؟

جواب: تخلیقی اظہار کے لیے شاعری پسند ہے۔

سوال:اپنے کلام میں سے کچھ قارئین کے لیے بھی عنایت کیجیے۔

نظم

بنجر دھرتی

سونا اانگن

سونی پیڑ کی بانہیں

من آنگن میں

دھول اڑتی ہے

خاک ہیں میری آنکھیں

پیاسی دھرتی، بارش پی کر مہکے اور شرمائے

سونے پیڑ پہ کونپل پھوٹے

بے طرح اترائے

من آنگن کی بنجر دھرتی

پیار کی بارش مانگے

 کون ہے ایسا بادل

جو اس دھرتی کو مہکائے

نگری نگری کال ہے جیسے

دوارے بند پڑے

آدم زاد ہے خون کا پیاسا

موہ میں کون پڑے

خامشی

کہیں پہ دور افتادہ

کسی چھوٹے سے قصبے  کے

بہت سنسان اسٹیشن پہ رک جانا

بہت رومانی لگتا ہے

اسی سنسان اسٹیشن کے

ویراں اور تنہا گارڈ ہاؤس میں کھڑے ہو کر

کبھی چاروں طرف دیکھو

وہاں تم کو لگے گا خامشی بھی بات کرتی ہے

وہاں تنہائی کی صورت

تمھاری ذات جیسی ہے

ہوا کی دھیمی سرگوشی

تمھاری بات جیسی ہے

وہاں شیشے کی کھڑکی سے

نظر حد نظر تک دیکھ لیتی ہے

تو پھر واپس نہیں آتی

پھر ایسے میں مرا دل بھی

وہاں رہ جانے کو ایسے مچلتا ہے

کہ جیسے خواب میں بچہ

لیے مٹھی میں اپنی ماں کے آنچل کو

نہ جانے کن جگہوں کی سیر کرتا ہے

مگر جب آنکھ کھلتی ہے

تو آنچل یوں سرکتا ہے

کہ کچھ باقی نہیں رہتا

 نہ اسٹیشن، نہ کھڑکی

نہ ہوا، نہ تم

مگر اک خامشی چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے