غزل

یہ تحریر 486 مرتبہ دیکھی گئی

فضاۓ انتظار میں کہیں جلا رہوں گا میں
چراغ ہوں کسی کی راہ دیکھتا رہوں گا میں

اتر چکا ہے تیری یاد کا نشہ سو تیرے بعد
بس ایک رنج کے خمار سے بھرا رہوں گا میں

حقیقتوں کے نغمہ گر زرا مجھے سلا بھے دے
کہ خواب کے دیار میں تو جاگتا رہوں گا میں

کسے مجال میری سوچ کے عمل میں دخل دے
سو اپنے نیک و بد کا آپ ہی خدا رہوں گا میں

وہ روشنی خیال کی وہ لہر سی جمال کی
ہمیشہ دل کے آس پاس دیکھتا رہوں گا میں

یہ رفتگاں کی یاد بھی عجیب یاد یے جسے
بھلا دیا تو اپنے آپ سے جدا رہوں گا میں

اگرچہ بے ثبات و بے نجات ہے یہ زندگی
مگر ثبات اور نجات ڈھونڈتا رہوں گا میں