غزل

یہ تحریر 264 مرتبہ دیکھی گئی

چودہ برس جمال کا سورج طلوع ہوا
پھر اس کے خدوخال کا سورج طلوع ہوا

دنیا بسیط رات میں کھاتی تھی ٹھوکریں
پھر یوں کہ اک خیال کا سورج طلوع ہوا

ذہنوں کی سر زمین تھی بنجر کٹھور شور
جب تک نہیں سوال کا سورج طلوع ہوا

کی اس نے ہم سے پرسشِ احوال جس طرح
زخموں پہ اندِ مال کا سورج طلوع ہوا

جو خواب دیکھتے تھے وہ سب خواب ہو گئے
جب تک کہ ان پہ حال کا سورج طلوع ہوا

ہر شخص شاد کام تھا ہر شخص بے گمان
جب شہر پر زوال کا سورج طلوع ہوا

میں ہار مان کر بھی اسے جیت نہ سکا
مجھ پر نہ اس کے حال کا سورج طلوع ہوا

دنیا جہاں پہ مجھ کو سمجھتی تھی اب گیا
مجھ پر وہیں کمال کا سورج طلوع ہوا

جتنا بڑا زوال ہے اتنا بڑا سوال
ہم پر ہی کیوں وبال کا سورج طلوع ہوا

ہم پر وبال بن کے اتر آئی چپ کی ریت
دنیا پہ قیل وقال کا سورج ہوا