غزل
اشفاق عامر
اپنی وحشت سے جو ڈرتا ہی چلا جاتا ہے
دل کے صحرا میں بکھرتا ہی چلا جاتا ہے
اس کی باتوں کا دیا جلتا ہے جب آنکھوں میں
شہر شب نور سے بھرتا ہی چلا جاتا ہے
کم نہیں مے سے محبت میں خیالوں کا نشہ
آدمی حد سے گزرتا ہی چلا جاتا ہے
تیری آواز کے شاداب جہانوں سے پرے
کوئی ویرانی سے بھرتا ہی چلا جاتا ہے
دھوپ اس شہر کی گلیوں میں کہاں ٹھہرے گی
سائے پر سایہ اترتا ہی چلا جاتا ہے
وقت کا یہ ہے کہ ہر تلخی و شیرینی سمیت
سلسلہ وار گزرتا ہی چلا جاتا ہے
وصل کا ایک اشارا بھی بہت ہے ہم کو
ہجر کا زخم تو بھرتا ہی چلا جاتا ہے