غزل
اشفاق عامر
اس یاد کا ستارہ چمکا جبین دل پر
اک جھلملاتا موسم آیا زمین دل پر
سوچوں کچھ اپنی بابت اتنی کہاں فراغت
آنکھیں لگی ہوئی ہیں راہ مکین دل پر
رو رو کے دھو لیا ہے رومال دل نے اپنا
اک داغ رہ گیا ہے بس آستین دل پر
ان خشک آندھیوں میں پتھر سی ہو گئی ہے
ابر کرم بھی برسے اب سر زمین دل پر
کیسے اسے بچاؤں کس گوشے میں چھپاؤں
رکھتا ہے آنکھ ظالم ہر پل نگین دل پر
عقل و خرد نے عامر وہ شعبدے دکھائے
مشکل سے رہ سکے گا اب کوئی دین دل پر