محبت کے باغ میں

یہ تحریر 2834 مرتبہ دیکھی گئی

ہر مصنف کے پہلے ناول میں، کسی نہ کسی حد تک، تشویش کی ایک زیریں لہر موجود ہوتی ہے۔ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ پڑھنے کے قابل کوئی بیانیہ وجود میں آ گیا یا نہیں یا اس صنفِ ادب میں مضبوطی سے قدم جمانے کے لیے اسے مزید ناول لکھنے پڑیں گے۔

ریاظ احمد بنیادی طور پر مصور ہیں۔ سیاسی طور پر بھی فعال ہیں اور واضح جھکاؤ بائیں بازو کی طرف ہے۔ اس وقت دائیں بازو کی جو سیاست ہے، اگر اسے سیاست کا نام دیا جا سکتا ہے، وہ کلی طور پر چند بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں یرغمال بن چکی ہے۔ لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ دائیں بازو کی سیاست کی مخالفت کی جائے۔

“شجرِ حیات” ریاظ احمد کا پہلا ناول سہی لیکن نثر میں اظہارِ خیال کرنا ان کے لیے نئی بات نہیں۔ وہ ٹی وی کے لیے طویل دورانیے کا ایک ڈراما لکھ چکے ہیں۔ ایک اور ٹی وی پروگرام میں انھوں نے ناظرین کو دنیا کی بڑی کتابوں سے روشناس کرانے کے فرائض بھی انجام دیے۔

ناول کا مرکزی کردار، بہزاد، مصور ہے۔ اس پر تعجب نہ ہونا چاہیے۔ عقل مندی کا تقاضا ہے کہ انھیں موضوعات یا کرداروں کو چنا جائے جو جانے پہچانے ہوں۔ بہزاد کے والدین کی خواہش تھی کہ وہ مقابلے کے امتحانوں میں حصہ لے اور بڑا افسر بنے۔ بہزاد بضد تھا کہ وہ مصور بننا چاہتا ہے۔ اس کے اصرار کے سامنے والدین کا بس نہ چلا۔

ناول کے آغاز میں اس کے والدین کار کے حادثے میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ بہزاد کو بھی ہسپتال میں مردہ تصور کر لیا گیا تھا لیکن کسی طرح جانبر ہو گیا۔ یوں وہ دنیا میں تنہا رہ گیا۔ ایک نیا آدم۔ اس کی پسندیدہ جگہ، جہاں جا کر اسے نئے نئے خیالات سوجھتے تھے، ایک باغ تھا۔ اسے جنت سمجھیے۔ پلاٹ کی تکمیل کے لیے حوّا کی ضرورت تھی۔ وہ بھی اسے مل گئی۔ شہر کے بشپ نے اس سے کہا کہ چرچ کے لیے حضرت عیسیٰؑ کی تصویر بنا دے۔ بشپ کی بیٹی، نیلی، نے بہزاد کو پسند کیا۔ بہزاد بھی اس پر فدا ہو گیا۔

بہرحال، زندگی میں مراحل اتنی آسانی سے طے نہیں ہوتے۔ ناول کا تقاضا تھا کہ کوئی رقیب بھی سامنے آئے۔ یہ رقیب جوزف کی صورت میں نمودار ہوا۔ اٹلی میں رہنے والا یہ نوجوان دینی علوم کا ماہر تھا اور بشپ اسے اپنی بیٹی کے لیے موزوں شوہر سمجھتا تھا۔ جوزف نے بہزاد کی بنائی ہوئی تصویر کی یہ کہہ کر مذمت کی کہ وہ تقدس کی حامل نہیں۔ آخر میں جوزف کو ناکافی ہوئی اور وہ نیلی کو بہزاد سے بدظن نہ کر سکا۔ بہزاد کو یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ حادثے کے بعد موت کے عارضی دورانیے میں اس نے دائمی زندگی کی آرزو کا پرتو دیکھا تھا۔ اس نے پیغمبر کی نہیں، اپنی ہی تصویر بنائی تھی۔ “جدھر دیکھتا ہوں ادھر میں ہی میں ہوں۔” اس لطیف نکتے نے ناول میں کچھ روشنی بکھیری ہے۔

ناول پر رومانی فضا حاوی ہے اور نثر بھی جا بجا شاعرانہ ہے۔ اس نے ناول کے تاثر کو کمزور کیا ہے۔ سب سے دل چسپ کردار ایک ادھیڑ پروفیسر کا ہے جو کئی بار بہزاد کو باغ میں ملتا ہے اور اپنے تجربات کو عمدگی سے بیان کرنے پر قادر ہے۔

کیا ہی اچھا ہو اگر ریاظ احمد حقیقت پسندانہ انداز میں پاکستان میں مصوروں اور مصوری کے بارے میں ناول لکھیں اور دکھائیں کہ آرٹ گیلریوں کا اچھا یا برا کردار کیا ہے، نقاد اور میڈیا کن مقاصد کے تحت مصوروں کی تعریف یا تنقیص کرتے ہیں اور خودغرضانہ معیارات حقیقی فنکار کو کس طرح گزند پہنچاتے ہیں۔ اس کی جھلک اس ناول میں بھی موجود ہے لیکن موضوع ایک بڑے ناول کا تقاضا کرتا ہے۔ موضوع سے انصاف کرنا ریاظ احمد کے لیے مشکل نہ ہوگا۔ البتہ انھیں نثر کا اسلوب بدلنا پڑے گا۔

شجرِ حیات از ریاظ احمد

ناشر: الحمد پبلی کیشنز، لاہور

صفحات: 164؛ چار سو روپیے