ہم سا ہو تو سامنے آئے

یہ تحریر 2852 مرتبہ دیکھی گئی

جب میں نے پہلی دفعہ عزیز ابن الحسن کا تھیسس دیکھا جو محمد حسن عسکری کے بارے میں تھا تو خوف زدہ ہو گیا۔ اتنے ضخیم تھیسس کو کون چھاپنا چاہے گا؟ مارک ٹوین کا وہ فقرہ یاد آیا جو اس نے ہنری جیمز کے کسی بھاری بھرکم ناول کو دیکھ کر چت کیا تھا: “اک دفعہ دھر دیا جائے تو اٹھائے نہ بنے۔” شکر ہے کہ مصنف نے عقل مندی سے کام لے کر تھیسس کو دو حصوں  میں تقسیم کر دیا۔ پہلا حصہ جس کا عنوان “محمد حسن عسکری، ادبی اور فکری سفر” ہے ہمارے سامنے ہے۔ اس میں بقول عزیز ابن الحسن “ہم نے محمد حسن عسکری کی شخصیت، مزاج، ترجیحات اور ان کے ادبی و ذہنی سفر کی عہد بہ عہد تدریج کا احوال اس طرح لکھا ہے کہ ان کے سفرِ حیات کے اہم گوشوں کے ساتھ ساتھ ان کی افتادِ طبع اور مرکزی ادبی رجحانات و تصورات، ان سے متعلق اہم شخصیات اور سماجی و سیاسی مسائل ادبی تحریکوں کے پس منظر میں تاریکی ترتیب سے سامنے آ جائیں۔” کتاب کو پڑھ کر تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ اپنی جگہ مکمل ہے۔ علاوہ ازیں، مصنف نے ایک اور کتاب کے ورود کی نوید بھی سنائی ہے جس کا عنوان “محمد حسن عسکری کے تنقیدی تصورات” طے پایا ہے۔ دیکھیے یہ کب شائع ہوتی ہے۔

جہاں تک ان کی زندگی کے حالات کا تعلق ہے تو وہ جتنے اس کتاب میں آ گئے ہیں ان پر مشکل سے کوئی اضافہ ہو سکے گا۔ پہلی وجہ تو یہ کہ ان کے جاننے والے اب رہ کہاں گئے ہیں۔ اتفاقاً کوئی نئی اور مستند بات معلوم ہو جائے تو اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ دوسری وجہ یہ کہ وہ اپنے ذاتی معاملات کو چھپائے رکھنے کے قائل تھے۔ صرف آفتاب احمد کے نام جو خط ہیں ان میں کہیں کہیں ذرا کھل کر بات کی ہے۔ ادب میں کیا ہو رہا ہے، کیا نہیں ہو رہا، سیاست کس ڈھرے پر چل رہی ہے، معاشی مسائل کیا ہیں، نفسیات کی روشنی میں کن باتوں کو کس طرح سمجھنا چاہیے، ان سب پر وہ بے تکلفانہ اور بعض دفعہ جارحانہ انداز میں بات کرتے رہے۔ اپنے بارے میں کچھ کہنا یا دوسروں کو “درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا” میں شریک راز کرنا انھیں منظور نہ تھا۔ جن دوستوں کو دل و جان سے قبول کیا تھا ان کے درمیان خوب ہنستے بولتے لیکن اگر کوئی اور آ جاتا، جس سے بے تکلفی نہ ہوتی تو اس طرح چپ سادھ لیتے جیسے کسی نامحرم کا سامنا ہو گیا ہو۔ سلیم احمد نے صحیح لکھا ہے: “جذبات کے اظہار سے ڈرتے تھے بلکہ شاید یہ ماننا بھی ناپسند کرتے تھے کہ ان میں جذبات جیسی کوئی چیز موجود ہے۔ وہ جزبات کے اظہار کو عامیانہ بات سمجھتے تھے۔ وہ انھیں ایسے چھپاتے تھے جیسے لوگ اپنی کسی کمزوری کو چھپاتے ہیں۔ ایک ایسے سپاہی کی طرح جو زخموں سے چُور ہو مگر اپنے زخم کسی کو دکھانا نہ چاہتا ہو اور اس لیے اپنی زرہ نہ اتارے۔ عسکری صاحب کی پوری زندگی ہی زرہ پوشی میں گزر گئی۔” خود عزیز ابن الحسن نے بھی لکھا ہے کہ “ان کی شخصیت کے بعض گوشے کچھ بوالعجبیوں کے شاہکار تھے۔”

بعض شواہد سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ انھیں تنگ جگہوں سے خوف آتا تھا۔ کسی ایسے شخص کے آ جانے سے، جس سے طبیعت  نہ ملتی ہو، انھیں گھٹن کا احساس ہوتا تھا۔ شاید موزوں طبع بھی نہ تھے۔ فراق اور آفتاب احمد کی باتوں سے یہی تاثر ملتا ہے۔

لیکن ان باتوں سے فرق کیا پڑتا ہے۔ ہر فرد میں کچھ نہ کچھ پہلو ایسے موجود ہوتے ہیں جن کی وہ اصلاح نہیں کر سکتا یا کرنا ہی نہیں چاہتا۔ نارمل یا بامعمول آدمی ایک خیالی شے ہے۔ تھوڑا بہت بگاڑ، بے راہ روی، غلط فیصلوں پر اڑنا، اپنے کسی قول کو، چاہے وہ غلط ہو، صحیح ثابت کرنے پر بضد ہونا، غیر تسلی بخش توجیہات تلاش کرنا، ان سے کہاں کہاں واسطہ نہیں پڑتا۔

رہا یہ الزام کہ عسکری صاحب اپنی رائے بدلتے رہتے تھے تو اس میں بہت کم وزن ہے۔ بات یہ ہے کہ ہر حساس آدمی (بلکہ ہر آدمی) ایک سطح پر نہیں جیتا اور یہ دیکھنے یا سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ مسلسل بدلتے ہوئے حالات میں اس کے لیے قدرتی طور پر کتنی گنجائش ہے یا وہ کتنی گنجائش بزورِ بازو یا بزورِ فکر نکال سکتا ہے۔ عسکری صاحب نے بڑی پامردی سے ڈھونڈنا چاہا کہ نجات یا فلاح کا راستہ کون سا ہے؟ انھوں نے مغرب کو بہت غور سے دیکھا، مغربی ادب سے شناسائی حاصل کی کہ ادب کو لبِ لباب کی حیثیت حاصل ہے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ مغرب سے اب جو مل سکتا ہے وہ محض انتشار ہے اور ہمیں اپنی فلاح اپنے ہی دین، تہذیب اور ادب میں تلاش کرنی چاہیے۔ یہ بڑا تکلیف دہ سفر تھا کیوں کہ خود مشرقی یا غیر یورپی ممالک مغرب سے اتنے مرعوب ہو چکے ہیں کہ کوئی انقلابی تبدیلی ممکن نظر نہیں آتی۔ مغرب کو مسترد کرنے کے باوجود،کسی نہ کسی وجہ سے، عسکری صاحب کا دل مغرب ہی میں اٹکا ہوا تھا اور اس کے لیے انھوں نے اشرف علی تھانویؒ کا سہارا لیا۔ لکھتے ہیں: “ایک عجیب اتفاق ہے کہ 28ء کے قرب مولانا اشرف علی نے اپنی مجلس میں کہا تھا کہ مجھے تو یہ نظر آ رہا ہے کہ اب اسلام کی حفاظت کرنے والے یورپ سے پیدا ہوں گے۔”

بہرحال، عسکری صاحب یکسر بدل بھی سکتے تھے۔ اس عالم آب و گِل میں ایک قوت ایسی بھی ہے جس کے شکنجے میں آ کر فرد کی قلب ماہیت بھی ہو جاتی ہے اور وہ سرشار بھی ہو سکتا ہے۔ یہ قوت عشق ہے جس نے چند برسوں کے لیے عسکری صاحب کی کایا پلٹ دی۔ وہ مشرقی لباس چھوڑ کر سوٹ پہننے اور ٹائی لگانے لگے۔ جس خاتون سے وہ شادی کے متمنی تھے اس کا تعلق خاصے متمول اور مغرب زدہ گھرانے سے تھا۔ ایک اور مشکل یہ تھی کہ عسکری سنی تھے اور خاتون شیعہ۔ یہ شادی نہ ہو سکی۔ اس مایوسی اور تلخ کلامی نے عسکری صاحب کے قلب و نظر پر کیا اثرات مرتبے کیے ان کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ ان کے اندر بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا ہوگا۔

جب عسکری صاحب امریکہ کے خلاف لکھتے ہیں تو ان سے اتفاق کیے بغیر چارہ نہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی حکومتوں نے جس طرح دنیا میں فساد برپا کیا ہے، آمروں کی حمایت کی ہے، بلا جواز جنگیں لڑی ہیں، اس کے پیش نظر کوئی بھی ہوش مند آدمی امریکہ کا طرف دار نہیں ہو سکتا۔ حیرت اس پر ہے کہ وہ روس کے حامی ہیں حالاں کہ ہر طرح کی آزادی کو کچلنے کے لیے سوویت روس کا کردار، خاص طور پر ستالن کے طویل دور میں، خاصا بھیانک رہا ہے۔ عسکری صاحب پاکستان میں لگنے والے مارشل لا سے نالاں تھے۔ ان کا متنفر ہونا بجا تھا۔ اگر وہ سوویت روس میں ہوتے تو انھیں پتا چلتا کہ پاکستانی مارشل لا محض پوپلے تھے۔ علاوہ ازیں تقریباً آمرانہ شان کے حامل لیڈروں کو پسندیگی کی  نظر سے دیکھنا بھی اچھی علامت نہیں۔

اب بعض باتوں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے جو کھٹکتی ہیں۔ ص29: پروفیسر نعیم الرحمٰن کے گھر کی علمی ادبی فضا میں ۔۔۔۔ عسکری صاحب دھومیں مچاتے پھرتے تھے۔گھر میں وہ چپ چپ رہتے۔ ان جملوں کا تضاد کیسے دور کیا جائے؟ ص184: عسکری نے اپنے بچپن کے زمانے میں مذہب پہ اس قدر کتابیں پڑھ لی تھیں۔ ص193: شمس الرحمٰن فاروقی کے نام ایک خط میں؛ دس بارہ سال پہلے تک میں نے کوئی دینی کتاب پڑھی ہی نہیں تھی۔ ص51: “جب سے لوگوں نے قرآن کو سمجھ کر پڑھنا شروع کیا ہے اس کا نتیجہ کیا نکلا ہے۔ ہر آدمی اپنی عقل لڑاتا ہے۔ ستر آدمی ستر رائیں۔” تو پھر اتنی بہت سی تفسیروں کا کیا کیا جائے؟ خود بھی تو آخر عمر میں ایک تفسیر کا انگریزی میں ترجمہ کر رہے تھے۔ احمد ندیم قاسمی نے منٹو کا جو خاکہ لکھا ہے اس میں یہ تاثر دیا ہے کہ منٹو کے نزدیک عسکری بس یوں ہی سے آدمی تھے جو آتے جاتے بس میاؤں کرتے تھے۔ لیکن ایک اور جگہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عسکری نے منٹو کے ساتھ اپنی چند روزہ مجلسوں میں اسے اس حد تک بدل دیا تھا کہ اپنی کونین کی شکر چڑھی گولی سے منٹو کے ہوش میں لانے والے انجکشن کو نیند آور دوا کا نسخہ بنا دیا اور صدیوں زندہ رہنے والے منٹو کے خدوخال کو بگاڑ کے رکھ دیا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جسے منٹو کو یوں ہی سا آدمی سمجھتے تھے اور جو صرف میاؤں کرتے تھے منٹو کو بگاڑنے میں کیسے کامیاب ہو گئے؟

آخری بات یہی ہے کہ اردو تنقید میں عسکری صاحب کا کیا مقام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کی ادب شناسی معرکے کی ہے اور اپنے خیالات کو جس منظم انداز میں اور جس سہولت سے بیان کرتے ہیں وہ قابل ذکر ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ ان کی بعض آرا سے ادیب اور نقاد متفق نہ ہوں لیکن ان کی طرح کا سیراب اسلوب ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔

عزیز ابن الحسن کی یہ کتاب خوب ہے اور اپنے موضوع سے انصاف کرنے میں کامیاب امید ہے کہ اس سلسلے کی اگلی کتاب بھی اتنے ہی قرینے کی ہوگی۔

ناشر: اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ،

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد

ص:367؛ 750 روپیے